452

اخلاق کی خوشبو۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

وہ پچھلے بیس دن سے لگا تار میرے پاس آرہا تھا وہ ہر روز آتا آرام سکونت تحمل اور مستقل مزاجی سے بیٹھا رہتا چار پانچ گھنٹوں کے بعد ایک ہی درخواست نما بات کر تا میں اُس کو ٹال دیتا۔اور وہ واپس چلا جاتا لیکن اگلے دن وہ پھر نئے ولولے جوش اور مستقل مزاجی سے آجاتا اُسے کسی بھی قسم کی جلد بازی نہ ہوتی نہ وہ بے قرار ہو تا نہ جلدی ملنے کی کو شش کر تا آنے جانے والے لوگوں کو دیکھتا رہتا میری نظر جب اُس کی نظر سے ٹکراتی اُس کی آنکھوں میں آشنائی کی چمک تیز ہو جا تی اور چہرے پر دلنواز تبسم پھیل جاتا وہ ہر بار آکر ایک ہی بات کی التجا کر تا اور میں ہر بار انکار یا ٹال دیتا لیکن مجھے روزانہ حیرت ہو تی کہ میرے انکار یا ٹالنے سے اُس کے ہونٹوں پر حرف شکایت تو دور کی بات ہے اُس کے چہرے پر ناگواری کا ہلکا سا عکس بھی نہ ہو تا کسی کو اتنی بار انکار کیا جائے اور وہ بار بار آئے اُسی خو ش اخلاقی اور شفیق تبسم میری آنکھیں آج سے پہلے ایسے کسی بھی انسان یا منظر سے نا آشنا تھیں ۔ اُس کی آنکھوں میں مریم کی سی پوترتا اور ہونٹوں کا دلنواز تبسم میں آہستہ آہستہ اُس سے متاثر ہو تا جا رہا تھا کیونکہ شفیق تبسم اور خوش اخلاقی ایسا وصف خاص ہے جو کسی کی بھی شخصیت کو بہت جا ندار، پرُ اثر اور سورج سے بھی زیادہ روشن بنا دیتا ہے اور اگر ایسے نایا ب انسانوں کے پاس کردار کی پختگی کا زیور بھی دستیاب ہو تو پھر سیم و زر کے انبار بھی ایسے لوگوں کو صراطِ مستقیم سے نہیں ہٹا سکتے مشکل سے مشکل وقت میں بھی نہ تو اِن کی آنکھوں کی پتلیاں کا نپتی ہیں اور نہ ہی اِن کے پا ئے استقلال میں لغرش آتی ہے اِن خوبیوں کے ساتھ اگر اعلی ظرفی کی بھی آمیزش ہو جا ئے تو کیا بات ہے کیونکہ اعلی ظرفی ایک ایسا جو ہر ہے کہ جس سے کئی مزید جو ہر بھی پھوٹتے ہیں اور پھر اِن کی وجہ سے ہی انسانی کر دار ایک تنا آور درخت بن جا تا ہے ۔ اور پھر دولت کی چکا چوند اور دولت کے ذخائر بھی ایسے لوگوں کو بدل نہیں سکتے اور ما دیت کے اِس دور اور آسائشوں کے ہجوم میں بھی ایسے لوگ تقویٰ کے ہما لیہ پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں آپ کی زندگی میں بے شمار ایسے لوگ ہو تے ہیں کہ سالوں سے آپ اکٹھے رہ رہے ہو تے ایک ہی گھر محلہ یا دفتر آپ روزانہ ملتے ہیں گھنٹوں باتیں بھی کر تے ہیں لیکن اجنبیت کی دیوار قائم رہتی ہیں آپ جب بھی ایسے لوگوں سے ملتے ہیں تو ایک ڈرِل سے گزرتے ہیں وقت گزاری سالوں ملنے والے اگر آپ کی زندگی سے چلے جا ئیں تو آپ کو اُن کی کمی کا احساس تک نہیں ہو تا کہ کو ئی آپ کی زندگی میں پچھلے کئی سالوں سے اتنے بھر پور طریقے سے تھا برسوں کے ساتھ کے بعد بھی آپ کا رشتہ استوار نہیں ہو تا آپ اُس کے جا نے کے بعد اُس کی کمی feelنہیں کر تے یعنی یہ ایسے لوگ ہو تے ہیں کہ ان کا ہو نا یا نہ ہو نا ایک ہی بات ہے نہ تو اُن کے ہو نے سے آپ کی زندگی بھر پور اور خوشگوار ہو تی ہے اور نہ ہی ان کے جا نے سے آپ کسی اداسی یا کمی کا شکار ہو تے ہیں اور بعض اوقات کو ئی آپ کی زندگی میں چند لمحوں کے لیے آتا ہے چند گھڑیاں گزارنے اور چند با توں کے بعد ہی آپ اُس کی شخصیت اور قرب کے سحر میں جکڑے جا تے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں یا آپ کو سالوں سے اِسی کی تلاش تھی اور اکثر بے ساختہ آپ کے لبوں سے نکل جا تا ہے ۔
قسمت سے بس ایک ہی گلا ہے تو اتنی دیر سے کیوں ملا ہے
ایسے ہی شفیق لوگ ہو تے ہیں جن کی کیمسٹری اور دماغ کی فریکوئنسی آپ سے اتنی زیادہ ملتی ہے کہ آپ بار بار ایسے لوگوں کے پاس جا نے ،اُن سے باتیں کر نا اور خوشگوار لمحات ان کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں آپ کو جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ اُس کا فون آیا ہے یا وہ آپ کے دروازے پر کھڑا ہے یا وہ آپ سے ملنے آیا ہے تو اُس کے تصور سے ہی آپ کے چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ کا نور پھیل جا تا ہے ۔آپ کسی مشکل یا تکلیف میں ہوں تو آپ کا دل کر تا ہے کہ کسی طرح آپ اُس کے پاس چلے جائیں یا وہ آپ کے پاس آجا ئے ۔ آپ اپنے ملنے والوں پر نظر دوڑائیں تو آپ کو بھی اپنی زندگی میں ایسے مثبت لوگ نظر آئیں گے ایسے با کردار لوگ ہی کسی بھی معاشرے کا اصل حسن ہو تے ہیں۔ اِن کے کردار اخلاق اور شخصیت سے ایسی مقناطیسی لہریں یا کشش چاروں طرف پھیلی ہے کہ جو بھی اِن کے قریب آیا پھر انہی کا ہو کر رہ گیا ایسے لوگوں کی قربت کا ایک لمحہ ساری عمر کے ساتھ میں بدل جا تا ہے کسی کی ایک نظر ساری عمر کے لیے آپ کو اپنا اسیر کر لیتی ہے پھر آپ کسی اور کی طرف دیکھتے بھی نہیں اور اگر آپ ایسے خوبصورت خوش گفتار اور خوش اخلاق لوگوں سے دور بھی ہوں تو کچھ چہرے ایسے ہو تے ہیں کہ اُن کا تصور اور ان کی باتیں یا د کر کے ہی آپ کے چہرے سے مسکراہٹوں کے پھول جھڑنے لگتے ہیں آپ گو شہ تنہا ئی میں اُس کی باتیں یاد کر کے خو دبخود ہی مسکراتے رہتے ہیں موجودہ ما دیت پرستی میں غرق اِس دور میں ایسے نایاب انسان اب بہت کم ہو گئے ہیں یا مادیت پرستی کے عفریت نے ایسے لوگوں کو نگل لیا ہے اور اگر کبھی بھولا بسرا ایسا نایاب انسان آپ کی زندگی میں آجا ئے تو یقین جانئیے آپ کااُس کے پاس ہی زندگی گزارنے کا دل کر تا ہے ایسے لوگوں کی قربت کا ایک ایک لمحہ خوب enjoyکر تا ہے دل کر تا ہے وقت کا بے راس گھوڑا تھم جا ئے وقت ساکت ہو جا ئے اور ہم اُس کی قربت کو ہی انجوائے کر تے رہیں خو ش قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جن کو ایسے لوگوں کا قرب اور ساتھ نصیب ہو تا ہے ایسے باکردار خوب سیرت لوگ کسی بھی معاشرے کا حقیقی حسن ہو تے ہیں جن کی وجہ سے ہی معاشرے میں زندگی کی چنگاریاں اب تک با قی ہیں ورنہ ما دیت پرستی کی عالمگیر تحریک کب کا انسانوں کو نگل چکی ہے اب تو جا نور ہی با قی بچے ہیں جو دن رات دولت کے پیچھے دوڑتے ہیں کھایا پیا افزائش نسل کا حصہ بنے اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے با کردار لوگوں کے وجود سے نرم اور ٹھنڈی اخلاق کی جو روشنیاں اور خوشبوئیں پھوٹتی ہیں اُن کی وجہ سے ہی معاشرے کے خدوخال ابھی تک قائم ہیں ۔ ایسا ہی ایک شفیق بردبار کمپلیکس فری شخص کئی دنوں سے میرے پاس آرہا تھا اُس کی ذات کے عجز نے مجھے متاثر کر دیا تھا ۔ میں نے اِس قدر سادہ آدمی نہ دیکھا تھا کہ وہ جب بھی مجھ سے بات کر تا اُس کے چہرے پر ادب اور پا کیزگی کا رنگ گہرا ہو جا تا اُس کی گفتگو جذبہ محبت اور عقیدت سے سرشار ہو تی اُس کی گفتگو میں التجا اور خلوص کی ایسی آمیزش ہو تی کہ مجھے انکار کر نے میں مشکل پیش آتی ۔ وہ ہر روز آکر ایک بات کر تا کہ میں نے آپ کو تقریباً دو سو کلو میٹر دور ایک چھوٹے شہر میں لے کر جا نا ہے کیونکہ میں آپ کو جودکھا نا چاہتا ہوں وہ میں یہاں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا اور اِس کے لیے آپ کو ہی میرے ساتھ جانا ہو گا کسی دوسرے شہر وہ بھی اتنی دور میرے لیے ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے اور میں اکثر دوستوں کو انکار ہی کر تا ہوں لیکن اِس بندے کی مستقل مزاجی اور خوش اخلاقی سے آخر کار میں زیر ہو گیا اور کہا کب جانا ہے تو اُس نے کہا جب آپ جانا پسند کریں تو میں نے ایک ہفتے بعد کا اُس کو وقت دیا میرے ہاں کہنے پر اُس کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا وہ بار بار میرا شکریہ ادا کر رہا تھا اُس کے چہرے پر وہ ممنونیت اورتشکر کی مسکراہٹ پھیلی ہو ئی تھی اُس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اب ہم نے طے کیا کہ کس طرح فلاں دن آئے گا اور کتنے بجے ہم لاہور سے نکلیں گے تا کہ رات تک واپس آجائیں اُس نے سارا کچھ طے کیا اور مجھے سمجھا بھی دیا لیکن جس کام کے لیے ہم جا رہے تھے وہ اُس نے ابھی تک نہیں بتا یا تھا اور پھر مقررہ دن ہم دونوں اُس شہر کی طر ف جا رہے تھے جہاں میری زندگی کا بہت بڑا سبق اور حیران کن منظر ہمارا انتظار کر رہا تھا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں