488

ایک دھرنااور!!!۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

fff
کیاسپریم کورٹ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کوبرقراررکھے گی یامعطل قراردے گی،کیاالیکشن کمیشن کاعملہ مستعفی ہوگاجوکہ کپتان کامطالبہ ہے یامعاملات جوں کے توں رہیں گے،کیاعمران خان کے اعلان کے بعد ایک اور دھرنے کے سائے منڈلانے لگے ہیں،کیاشہراقتداراسلام آباد ایک بارپھر میدان جنگ بننے والاہے، کیا واقعی عمران خان اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے ایک بارپھردھرنادے پائیں گے یااپنے اعلان اور بیانات سے روگردانی کی روایات کوزندہ رکھنے کے مرتکب ہوں گے جیساکہ ان سے متعلق مشہورہے کہ وہ اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتے ،اٹھتے یہ وہ اہم سوال ہیں جوانتخاب معطل اور حلقے میں دوبارہ پولنگ کرانے کے حکم پر مبنی الیکشن ٹریبونل کا نادراکے فرانزک رپورٹ کی روشنی میں 22اگست کوقومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 لاہور سے متعلق مبینہ سوصفحات پرمشتمل غیرمعمولی اہمیت کاحامل فیصلہ آنے کے بعد عوامی اور سیاسی حلقوں میں زیربحث بنے ہوئے ہیں۔ ا گرچہ سپیکر آیازصادق نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کااعلان کردیاہے فیصلہ آنے کے بعد ان کاکہنایہ تھاکہ نون لیگ کی روایات کے مطابق فیصلے کااحترام کرتے ہیں مگر اس پر کچھ تحفظات ضرورہیں اس لئے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے جوکہ ان کاقانونی حق ہے جبکہ ان کے وکیل کابھی کہنایہ تھاکہ الیکشن ٹریبونل نے بد انتظامی کے تحت الیکشن مشینری کوذمہ دار ضرورٹہرایاہے مگرفیصلے میں انتخابی دھاندلی کا کہیں بھی کوئی ذکرنہیں۔مذکورہ فیصلے پر وزیراعظم نوازشریف نے بھی اسی طرح کاردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ الیکشن ٹریبونل کافیصلہ قانونی عمل کاحصہ ہے اورتمام سیاسی جماعتوں کوفیصلے کااحترام کرنا چاہئے۔ وزیراعظم کے مطابق معاملے کاجائزہ لے کر سپریم کورٹ میں جانے کافیصلہ کریں گے ۔دوسری جانب 9 گھنٹے کی طویل تاخیر اور صبرآزماانتظارکے بعدالیکشن ٹریبونل کا فیصلہ آنے اوراس کی روشنی میں اسپیکر آیازصادق کی وکٹ گرنے کے بعد تحریک انصاف کے ٹائیگرزنے لاہورسمیت ملک کے دیگر شہروں میں خوب جشن منایاانہوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے اور مٹھائیاں تقسیم کیں ۔مذکورہ فیصلہ آنے کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاہورمیں پارٹی ورکرزسے خطاب میں اگرچہ بچپن کے ساتھی کے ساتھ ہمدردی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ آج آیازصادق او ر ان کے گھروالے جس تکلیف سے گزر رہے ہیں انہیں اس کا احساس ہے اور آیاز صادق کے ساتھ ان کی ذاتی کوئی دشمنی بھی نہیں لیکن عام انتخابات کے بعد انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے وہ صرف چارحلقے کھولنے کاجومطالبہ کررہے تھے اور جس کے لئے ان کی جماعت نے اسلام آباد میں 126دن کادھرنادیاتھاآج اسپیکر کی وکٹ گرنے کے بعد ان کاوہ مؤقف درست ثابت ہواہے ۔عمران خان کاکہنایہ تھاکہ الیکشن ٹریبونل کافیصلہ آنے کے بعد کوئی یہ نہ کہیں کہ انہوں نے دھرنادے کرقوم کاوقت ضائع کیاہے بلکہ قوم کاوقت انہوں نے نہیں نوازشریف نے ضائع کیاہے۔انہوں نے الیکشن کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر)سرداررضاخان کوکلین چٹ دیتے ہوئے چاروں صوبائی الیکشن کمشنرزکے فوری مستعفی ہونے کامطالبہ کیااور کھلی دھمکی دی کہ اگر الیکشن کمیشن کاعملہ مستعفی نہ ہوااور دوہفتوں میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے خط کاجواب نہیں دیاتوایک بارپھر دھرنادیں گے اور اس بارایسادھرنادیں گے کہ لوگ 126دنوں کے دھرنے کوبھول جائیں گے۔عمران خان نے کارکنان سے مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ ابھی سے دھرنے کی تیاری کریں۔اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے کے بعد اسپیکرآیازصادق کے انتخابی حلقہ سے متعلق الیکشن ٹریبونل کاآنے والا فیصلہ نہ صرف تحریک انصاف کے لئے خوشی کاباعث ہے بلکہ ملک کی انتخابی تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت کاحامل بھی ہے اور اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تویہ کہاجاسکتاہے کہ آنے والے وقتوں میں وطن عزیزکے اندرانتخابی عمل درست سمت گامزن ہوگاجس سے جمہوریت مستحکم ہوگی ۔گوکہ الیکشن ٹریبونل کے فیصلہ سے تحریک انصاف کے اس مؤقف کوتقویت ضرور ملی ہے جس کی بنیادپر اس نے شہراقتدارمیں 126 دن تک دھرنادیاتھا جبکہ دھرنے کے اختتام سے لے کر مذکورہ فیصلہ آنے تک پی ٹی آئی کے اندرونی صفوں پر خاموشی سی چھاگئی تھی سواس پر پی ٹی آئی کی جانب سے غیرمعمولی جشن منانا جوازضروررکھتاہے اور اب انہیں جاندارسیاسی سرگرمیوں کاایک بہتر موقع ہاتھ لگاہے جبکہ قطع نظراس کے کہ سپریم کورٹ میں اگر الیکشن ٹریبونل کایہ فیصلہ چیلنج کیاجاتاہے توفیصلہ کیاسامنے آئے گا مگر وجود رکھتے ان حقائق کوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا کہ اگر واقعی انتخابی دھاندلی سے متعلق پی ٹی آئی کامؤقف درست تھاتوانتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے قائم جوڈیشل کمیشن کافیصلہ تحریک انصاف کے خلاف کیوں آیاتھا،کیوں جوڈیشل کمیشن نے پی ٹی آئی کے مؤقف کو درست تسلیم نہیں کیا،اوریہ بھی کہ تحریک انصاف جوڈیشل کمیشن کو انتخابی دھاندلی سے متعلق وہ تمام ثبوت فراہم کرنے میں ناکام کیوں رہی تھی جن کاوہ تسلسل کے ساتھ دعویٰ کرتی آرہی تھی، اگرتحریک انصاف کادعویٰ ہے کہ وہ انتخابی دھاندلی سے متعلق اپنے مؤقف کے لحاظ سے عوام میں مقبول ہے تو دھرنے کے بعد ضمنی انتخابات میں پے درپے شکستوں سے دوچار کیوں ہوتی رہی جبکہ بتایاجاتاہے کہ دھرنے سے لے کراب تک پی ٹی آئی قومی اور صوبائی اسمبلی کے چھ حلقوں پر شکست کھاچکی ہے جن میں این اے 19 ہری پورکاضمنی انتخاب قابل ذکر ہے اس صورتحال کے پیش نظراٹھتے یہ سوال اہم ہیں کہ الیکشن ٹریبونل کامذکورہ فیصلہ آنے کے بعد کیاتحریک انصاف کی جانب سے دوبارہ دھرنادینا چاہئے، کیا ملک قوم ایک اور دھرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں،کیاتحریک انصاف کوممکنہ دھرنے پر توجہ دینی چاہئے جس کاعمران خان اعلان کرچکے ہیں یاتوجہ دینی چاہئے اپنی تنظیم سازی اور عوامی قوت بڑھانے پرجس سے متعلق جسٹس(ر) وجیہ الدین اور دیگرلوگوں کی جانب سے انگلیاں اٹھتی رہی ہیں،کیابطوراحتجاج دھرنادیناضروری ہے یاشہرشہرجلسوں کے ذریعے اپنافیصلہ عوامی عدالت میں لے جانااہم ہے،کیاوزیراعظم کے استفے کی طرح پھر استعفوں کامطالبہ لے کر احتجاج ضروری ہے یاضروری ہے کہ عمران خان خیبرپختونخواکی حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیں جبکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور ناکامی کازیادہ تر انحصار خیبرپختونخوامیں اس کی موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی پر ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں