469

زندگی۔۔۔۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں اور میرا ساتھی مسافر لاہور سے تقریباً دو سو کلو میٹر دور قصبہ نما شہر کی طرف برق رفتاری سے جا رہے تھے میرا ساتھی مسلسل تشکر آمیز لہجے میں گفتگو کئے جا رہا تھا اُس کے لہجے کی ممنو نیت اب مجھے شرمندہ کر رہی تھی کیونکہ میرے ساتھی نے مجھے ابھی تک وہاں جا نے کی وجہ نہیں بتا ئی تھی میں نے جب بھی پو چھا تو اُس نے معذرت کے لہجے میں کہا سر آپ خو دجا کر دیکھیں گے تو آپ کو صیحح ادراک ہو گا کہ وہاں جا نا کیوں ضروری تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ جس گھر ہم جا رہے تھے وہ اب دنیاوی بابو ں ڈاکٹروں حکیموں پیرو ں فقیروں سے اتنے زیادہ ما یوس ہو چکے ہیں یا مایوسی کے اندھیروں میں اِس قدر کھو چکے ہیں کہ اب اُنہیں امید کی کرن نظر ہی نہیں آتی ۔ اگر کو ئی انہیں کسی طبیب یا بزرگ کا بتا تا بھی ہے تو وہ یہ کہہ کر صاف انکا ر کر دیتے ہیں کہ ہم نے در در اتنی زیا دہ ٹھوکریں کھا ئی ہیں اور ہر چوکھٹ سے نا مراد واپسی کے بعد اب ہم ما یوسی کے سمندر میں اِس حد تک غرق ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں کسی پر اعتبار نہیں ہے پیروں بابوں ڈاکٹروں حکیموں نے ہمیں اِس قدر لو ٹا ہے کہ اب ہم میں ہمت نہیں ہے ہما رے امید کے چراغ اتنے زیادہ بار بجھے ہیں کہ اب ہمارے اندر امید کی کرن یا چنگاری سلگتی ہی نہیں ۔اب ہم نے ایسے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے ۔ اب جب بھی ہمارا کو ئی دوست یا رشتہ دار ہمیں کسی مسیحا کا پتہ بتا تا ہے تو ہم یہی کہتے ہیں کہ اُن سے ہمارے لیے دعا کرا دیں یا اُن کو ہما رے پا س لے آئیں اب ہم صرف خدا کی رحمت کا ہی انتظار کر رہے ہیں ۔ میرا ساتھی اور بھی بہت ساری باتیں کر رہا تھا اور میں ملے بغیر ہی اُس خا ندان کے لیے ڈھیروں دعائیں کر رہا تھا آخر اُنہیں کو نسی مصیبت بیما ری یا پریشانی آپڑی ہے کہ کو ئی بھی اُن کا علاج یا مداوا نہیں کر سکا بار بار ما یوسی نے اُنہیں نا امیدی کے اندھیرے غار میں دھکیل دیا ہے کہ اب وہ کسی کے پاس جا نے کو تیا ر ہی نہیں ہیں ۔ میراساتھی اپنے کسی ذاتی مسئلے کے سلسلے میں میرے پا س آیا اور خدا نے اِس کی مشکل آسان کر دی تو اب یہ چاہ رہا تھا کہ اُس خاندان کی مشکل بھی آسان ہو جا ئے کسی دوسرے کا دکھ اور درد محسوس کر نا ہی اصل عبا دت اور زندگی ہے خدا نے اِس شخص کو اِس لا زوال نعمت سے خوب نوازا تھا یہ اُس خاندان کے درد کو محسوس کر کے ہی پچھلے کئی دنوں سے مجھے مجبور کر رہا تھا کہ سر آپ براہ مہربانی ایک بار میرے ساتھ ضرور جا ئیں ۔ شاید آپ کی کسی کو شش سے خدا کا پیما نہ رحمت چھلک پڑے اور اُس خاندان کی زندگیوں میں جو ویرانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں بہا ر کے رنگ بکھر جا ئیں اندھیروں کی جگہ روشنیاں دکھوں کی جگہ خو شیاں اِس امید اور بھروسے پر یہ مجھے اُس شہر کی طرف لے کر جا رہا تھا ۔ اُس خاندان پر کونسی مصیبت یا مشکل تھی اُس کے بارے میں ابھی تک نہیں بتا یا تھا ۔ میں اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ یہ روٹین کا کیس نہیں ہے مسئلہ کوئی بہت ہی سنجیدہ نو عیت کا ہے میرا ساتھی مسلسل باتوں سے میرا دل بہلا نے کی کو ششوں میں لگا ہوا تھا اور میں کبھی اُس کی با توں کی طرف دھیان دیتا کبھی اللہ تعالی کا ذکر اور ساتھ ساتھ پنجاب کی دیہاتی زندگی کو enjoyکر تا جا رہا تھا کیونکہ میرا پس منظر بھی دیہی زندگی سے ہے میں نے بھی بچپن اور لڑکپن گا ؤں میں ہی گزارا ہے اِس لیے دیہی زندگی کے رنگوں کو خوب انجوائے کر رہا تھا اور پھر ایک لمبے سفر کے بعد ہم اُس شہر میں داخل ہو گئے اورہم مختلف گلیوں سے گزرتے ہو ئے ایک پرانے زنگ آلود لو ہے کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے میرے ساتھی نے لو ہے کے دروازے پر دستک دی ۔ گھر والے شاید ہما ری آمد سے پہلے ہی با خبر تھے فوری طور پر گیٹ کھُلا تو ہما رے سامنے قدرے بھا ری جسم کا مالک تقریباً ایک پچاس سالہ شخص کھڑا تھا ہمیں دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں آشنائی کی چمک تیز اور چہرے پر شفیق مسکراہٹ بکھر گئی وہ ہمیں لے کر گھر کے صحن میں داخل ہو گیا جہاں پر پہلے سے چارپائیاں بچھی ہو ئی تھیں ہم ان پر جا کر بیٹھ گئے گھر شاید پانچ مرلے پر مشتمل تھا جس میں دو کمرے اور برامدہ تھا ۔ پرانے گھر کے درودیوار پر ویرانی برس رہی تھی میرا تجسس آخری حدوں کو چھو رہا تھا کہ یہاں تو ایسا کو ئی منظر یا بات نہیں جس کے لیے مجھے یہاں لایا گیا ۔ میں بغور گھر کے درو دیوار کا معائنہ کر رہا تھا میری متجسس نظروں نے پو رے گھر کا طواف کیا لیکن اداسی ویرانی شکستگی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا میزبان میرے تجسس کو بھا نپتے ہو ئے بولا سر آپ پا نی وغیرہ پی لیں پھر آپ کو کچھ دکھا تے ہیں تا کہ آپ کو یہاں بلا نے کا مقصد سمجھ آسکے پھر پا نی وغیرہ پینے کے بعد میزبان نے میری طرف گہری نظروں سے دیکھا اور کہا سر آئیں میرے ساتھ اور پھر سامنے ایک کمرے کا دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہو گئے اور پھر میرا دل دھڑکنا بھو ل گیا سانس رک گیا اور میرے پاؤں زمیں میں دھنس کر رہ گئے میرے سامنے میری زندگی کا سب سے درد ناک منظر تھا ایسا منظر میں نے پہلی اور آخری بار دیکھا میری آنکھوں کی پتلیاں حرکت کر نا بھو ل گئیں اور میں سنگی مجسمے کی طرح بے حس حرکت کھڑا تھا محترم قارئین آپ میں سے کو ئی بھی ہو تا تو یقیناًاُس کی حالت بھی میرے جیسی ہی ہو تی میرے حواس اور جسم کو خوف اور دہشت نے جکڑ لیا تھا میں خو ف کا اسیر بنا حیرت زدہ کھڑا تھا کیونکہ منظر ہی ایسا تھا کمرے میں کو ئی بیڈ وغیرہ نہیں تھا زمین پر چٹائی یو دری بچھی تھی اُس پر چار بستر لگے ہو ئے تھے اور اُن بستروں پر چار پرندے نما بچے بلکہ ہڈیوں کے ڈھانچے پڑے ہو ئے تھے چار بچوں کے جسم جو اب ڈھانچوں میں بدل چکے تھے چاروں کے جسم سوکھ کر کا نٹا بن چکے تھے ہڈیوں پر با ریک کھا ل لپٹی ہو ئی تھی کسی بہت ہی خوفناک پراسرار جان لیوا بیما ری نے اُن کے جسموں کے گوشت کو چاٹ لیا تھا اُن میں حرکت کر نے کی ہمت نہیں تھی وہ بے حس و حرکت لیٹے ہو ئے تھے کسی انسانی جسم کی یہ حالت میں پہلی با ردیکھ رہا تھا خوف میری ہڈیوں تک سرائیت کر گیا تھا اُن میں سے دو بچے شاید نیم بے ہوش یا سو رہے تھے جبکہ دو بچے ہما ری طرف غور سے دیکھ رہے تھے اُن کے چہروں پر سب سے نمایاں اُن کی چمک دار آنکھیں تھیں اُن کی آنکھوں میں میزبان کے لیے آشنائی کی چمک تھی ہم پر اور کمرے کے درو دیوار پر سناٹے کا راج تھا ہم سب خا موشی اور سناٹے کے اسیر ہو کر رہ گئے تھے میرے ہوش و حواس شل یا معطل ہو چکے تھے میری زبان جو بر وقت بو لتی رہتی ہے اُس وقت گو یائی سے محروم ہو چکی تھی انسانی جسموں کے ساتھ اِس قدر خو فناک سلوک میں پہلی بار دیکھ رہا تھا کسی بہت خطرناک اور پراسرار بیماری نے اُن بیچاروں کو بری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا تھا مر ض کی خو فناکی کا اندازہ آ پ اِس با ت سے لگائیں کہ خوفناک بیما ری نے اُن کے جسموں کو اِس طرح چاٹا کہ ہڈیاں اندر کو مڑی ہو ئی تھیں ہا تھ بازوں اور ٹانگیں اند رکو مُڑی ہو ئی تھیں اُن کے جسم سیدھی حالت میں نہیں تھے بلکہ گھٹڑی کی شکل میں اکٹھے ہو ئے تھے ان کے با زو اور ٹانگیں اندر کو گُھس چکی تھیں ۔ اب میزبان نے خا موشی کے سکوت کو توڑا سر آپ اِن کی عمریں بتا سکتیں ہیں میں نے نفی میں سر ہلا یا تو وہ بولا یہ تین بیٹیاں ہیں جن کی عمریں با لترتیب بیس اٹھا رہ اور سترہ سال ہے جب بیٹا پندرہ سال کا ہے مجھے یہ سن کر شدید جھٹکا لگا کیونکہ میں تو اِن کو چھ سات سال کے بچے سمجھ رہا تھا جبکہ حقیقیت میں سارے کے سارے جوان تھے لیکن پراسرار خو فناک بیمار ی کی وجہ سے اُن کے جسموں کی نشوونما رک چکی تھی اُن کی گروتھ ہو ہی نہیں رہی تھی با پ آگے بڑھا اُس نے ایک بچے کو اٹھا یا اور اپنی آغوش میں بھر لیا اُس بچے کو پیا ر کیا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرایا اِس دوران بچے کے منہ سے صرف ہوں ہاں کی آوازیں نکل رہی تھیں بچہ خو شی کا اظہار کر رہا تھا میں بھی زمین پر بیٹھ گیا تو با پ نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہا سر میں اللہ کی رضا پر خوش ہوں میں نے آپ کو یہاں اِن بچوں کے علاج کے لیے نہیں کسی اور کام کے لیے بلایا ہے برائے مہربانی اُس مسئلے میں میری مدد کریں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں