300

چترال کو بچانے کیلئے حکومتی سطح پر اینوائرمنٹ پالیسی بنانی چاہیے ۔ جس کیلئے ہم سب کو مل کر حکومت کو مجبور کرنا پڑے گا۔سرتاج احمد خان

چترال ( نمائندہ ڈیلی چترال ) چترال کے لئے جتنی معیاری اور مضبوط انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے ۔ اُس سے زیادہ کوالٹی ایجوکیشن اور معیاری تعلیمی انسٹیٹیوشنز کی ضرورت ہے ۔ اور تعلیم ہی چترال کی ترقی اور علاقے کے لوگوں کے روزگار کا بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ یہ دور علم اور عقل بیچنے کا ہے ۔ اور جن کے پاس یہ وسائل ہوں گے ۔ وہ خوشحال اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوں گے ۔ ان خیالات کا اظہار سابق تحصیل ناظم چترال اور چترال بچاؤ مہم کے چیرمین سرتاج احمد خان نے گذشتہ روز عبدالولی خان یونیورسٹی چترال کے آڈیٹوریم میں اساتذہ اور طلباء و طالبات کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال کے اساتذہ اور سٹوڈنٹس کو چترال کے مستقبل کے بارے میں الرٹ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ یہ خطہ انتہائی طور پر ڈیزاسٹر زون بن گیا ہے ۔ جہاں سیلاب اور زلزلوں کی وجہ سے زندگی گزارنا دن بدن مشکل ہو تا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہماری غیر دانشمندانہ اقدامات اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے مصائب نے ہمیں گھیر لیا ہے ۔ اب بھی اگر آنے والے موسمیاتی آفات سے بچنے کیلئے منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ تو شاید یہ چترال کے تعلیم یافتہ طبقے کی بہت بڑی غلطی ہو گی ۔ سرتاج احمد خان نے کہا ۔ کہ چترال کو بچانے کیلئے حکومتی سطح پر اینوائرمنٹ پالیسی بنانی چاہیے ۔ جس کیلئے ہم سب کو مل کر حکومت کو مجبور کرنا پڑے گا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں 543گلیشئرز کے ذخائر ہیں ۔ جو عالمی اور مقامی ماحولیاتی حدت کی وجہ سے پگھل کر سیلاب کی صورت میں چترال کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔ جن کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ اب تک چترال کے تقریبا دس گاؤں سیلاب کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں ۔ اور مزید تباہی کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ تباہی صرف چترال تک محدود نہیں بلکہ دریائے چترال میں شامل ہو کر صوبہ خیبر پختونخوا کے کئی شہر وں کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ناقص حکومتی پالیسی کی وجہ سے قدرتی وسائل کا غلط استعمال اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی اس کی بڑ ی وجو ہات ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں ایندھن کیلئے لکڑی ختم ہو چکی ہے ۔ اس لئے حکومت متبادل ایندھن کے طور پر تیس میگاواٹ بجلی مفت چترال کو فراہم کرے ۔ چترال میں خوراک کیلئے گندم گلگت بلتستان ریٹ پر مہیا کیا جائے ۔ جنگلات کی حکومتی رائیلٹی جنگلات کی افزائش پر خرچ کیا جائے ۔ دریائے چترال کانام ملک بھر میں دریائے چترال کے نام سے پکارا جائے ۔ اور اس کی رائیلٹی چترال کو دی جائے ۔ فارسٹ چیک پوسٹ چکدرہ سے چترال منتقل کیا جائے ۔ سیلاب سے تباہ شدہ خاندانوں کو کاغلشٹ کی آراضی میں بسایا جائے ۔ اور زہریلی گیسوں کے حوالے سے ملنے والی بین الاقوامی فنڈ سے چترال کو مناسب حصہ دیا جائے ۔ یونیورسٹی کے تمام اساتذہ اور سٹوڈنٹس نے ان تمام مطالبات کو جائز تسلیم کرتے ہو ئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ۔ اس موقع پر ڈسٹرکٹ کوآرڈنیٹر ساؤتھ ایشیاء پارٹنر شپ پاکستان چترال محمد اسماعیل نے آواز پراجیکٹ کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ۔ اور کہا ۔ کہ طلباء کو ایسے اہم مسائل کی طرف بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ مستقبل آپ کا ہے ۔ اقلیتی ممبر ڈسٹرکٹ کونسل چترال عمران کبیر نے بھی خطاب کرتے ہوئے طلباء کو دور جدید تعلیم کی اہمیت و ضرورت اور چترال کے مسائل کے حل کے حوالے سے چترال کے لوگوں کو متحد ہونے کی ضرورت پر زور دیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں