419

ڈور کہاں سے ہلتی ہے۔۔۔۔۔سید شاہد عباس

آخری اطلاعات آنے تک طورخم بارڈر پر حالیہ کشیدگی کے باعث ہونے والی فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہونے والے میجر جواد چنگیزی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ اس جھڑپ میں شہادات کا رتبہ پانے والے پہلے آفیسر رینک فوجی ہیں اس کے علاوہ کافی تعداد میں زخمی بھی ہیں۔ جب کہ افغان فورسز کے دعوے کے مطابق ایک افغان فوجی مارا جا چکا ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بھاری ہتھیار پاک افغان سرحد پہ پہنچائے جانے کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں اس کے علاوہ افغان چیف ایگزیکٹو کی طرف سے متنازعہ بیانات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر اعلانیہ طور پر دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔
تمام حالات کا جائزہ لیں تو ایک طالبعلم تک کے لیے بھی اس بات کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ افغان فورسز میں نہ ہی اتنی صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان آرمی کے ساتھ مسلح پنجہ آزمائی کی متحمل ہو سکیں۔ نہ ہی ان کی تربیت کا معیار اتنا اعلیٰ ہوا ہے کہ وہ دنیا کی ایک مضبوط اور سخت جان فوج کے خلاف میدانِ کارزار میں آمنے سامنے آ سکیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین ایک ایسا عنصر ہیں جن کے ہوتے ہوئے افغانستان کسی بھی صورت محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ان تمام حقائق کے باجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت دونوں ممالک کی افواج طورخم بارڈر پر آمنے سامنے ہیں۔ اور جانی و مالی نقصان بھی ہو رہا ہے۔
یہ محاذ آرائی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کی طرف سے جنرل راحیل شریف نے امریکی قیادت کو افغانستان میں موجود فضل اللہ کو نشانہ بنانے پہ اصرار کیا ہے اور دوسری طرف پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کا معاملہ مکمل طور پر ختم کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہے اس حوالے سے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان یہی طیارے اب اردن سے خریدے گا۔ ایک اور اہم عنصر یہ بھی قابل غور ہے کہ پاکستان فضائیہ کی دفاعی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے جے ایف 17 تھنڈر طیارہ ، جو پاکستان اور چین کے باہمی اشتراک سے طیار کیا گیا ہے ،فضائی بیڑے میں شامل ہو چکا ہے۔ جے ایف 17تھنڈر بے شک ایف سولہ کا متبادل تو نہیں لیکن اس کے باوجود دفاعی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے مددگار ضرور ثابت ہوا ہے۔ اور اب مکمل طور پر پاکستان میں ہی تیار بھی کیا جا رہا ہے۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکہ کو معمول کی تھپکی جو وہ اکثر اپنی بات منوانے کے لیے دیتا آیا اپنے ہاتھ سے نکلتی نظر آ رہی ہے۔ کہ جب بھی کچھ منوانا ہو کہا جاتا تھا کہ جلد ہی ایف سولہ طیارے دے دیے جائیں گے۔
یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ این ایس جی یعنی نیوکلئیر سپلائرز گروپ میں شمولیت اس وقت بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ بھارت نے پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کم و بیش راہ ہموار کر لی ہے۔ صرف پاکستان کا دیرینہ دوست چین راستے کی آخری رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تمام رخ بھی بد قسمتی سے صرف چین کی اس مخالفت کے گرد گھوم رہاہے۔ وزارت کے دو سربراہان ہونے کے باجود پاکستان چین کی بھارت کی مخالفت کا فائدہ نہ اٹھا سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب چین نے بھارت کی گروپ میں شمولیت کی مخالفت کی تو پاکستان پوری دنیا میں اپنے سُفراء اور اتاشیوں کی مدد سے ایک مثبت پیغام بھیج کر اپنا کیس مضبوط کرتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ کیوں کہ پاکستانی خارجہ پالیسی اس وقت بے سمت جہاز کی مانند ہے جسے پتا ہی نہیں کہ منزل کس جانب ہے۔
ان تمام حالات میں جب عالمی طاقتوں اور عیار ہمسائے کو اور کوئی راہ نہیں سوجھی تو اس نے ایک ایسے محاذ کو گرما دیا جس کی نہ تو کوئی منطق بنتی ہے نہ وقت ۔ پاکستان کے اپنی حدود کے اندر سرحدی دروازے کی تعمیر کو جواز بنا لیا گیا ۔ افغانستان میں امریکہ اور بھارت کا جس قدر اثر و رسوخ ہے یہ تو دیوانے کی بڑھک ہی ہو گی کہ اگر کوئی کہے کہ اسے معلوم نہیں کہ ڈور کہاں سے ہل رہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی کونسل خانے، پاکستان کو مطلوب عناصر کی افغانستان میں موجودگی منظر صاف کر دیتے ہیں۔ افغان آرمی تو ابھی خود محتاج ہے۔ تنخواہیں تک پوری ادا ہو نہیں پا رہیں کجا ایک مضبوط اور تجربہ کار فوج سے لڑائی، لہذا یقیناًسامنے افغان آرمی کے پتلے ہیں جن کی ڈوریاں ماہر، تجربہ کار، اور عیارانہ صفت کی حامل انگلیوں میں ہیں۔ یہ انگلیاں صرف اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دو پڑوسی ممالک کے تعلقات خراب کرنے پہ تُلی ہوئی ہیں۔ اور بادی النظر میں عالمی طاقتوں کی انگلیاں کامیابی سے یہ ڈوریاں ہلا رہیں ہیں۔
جہاں واضح دشمن کی ڈوریوں پہ افغان آرمی و حکومت ناچ رہے ہیں۔ وہیں پاکستان کے پاس لاکھوں مہاجرین کا بوجھ ملک کے وسائل کھا رہا ہے۔ جب برادر اسلامی ملک اپنے محسن کی جڑوں کو کاٹنے سے ہی باز نہیں آ رہا تو پھر کیسی مہمانداری ، ایک حکم نامے سے تمام مہاجرین کو واضح ڈیڈ لائن دی جائے وطن واپسی کی بصورت دیگر ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے کہ افغانی بھائیوں کو بھی کچھ معلوم ہو کہ احسان کرنے والے کا احسان کبھی بھولتے نہیں ہیں۔ وہ ہمارے جوانوں کی طرف گولیاں داغ رہے ہیں اور ہم مہمانداری کر رہے ۔ یہ تضاد ختم ہو گا تب ہی پاکستان عوام بھی سکون کا سانس لے پائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں