260

کیا اس حادثے کے ذمہ داران کو سزا ہوگی ؟۔۔۔سماجی کارکن عنایت اللہ اسیرؔ

پی آئی اے کے ذمہ داران کی غفلت ، لاپرواہی اور بے پرواہی نے پاک وطن کے( 47) سینتالیس گھروں میں ماتم برپا کرنے کے ساتھ ساتھ پاک وطن کے نامور پائیلٹ ،کو پائیلٹ ، عظیم سپوت جنید جمشید اور فعال انتظامی افسر اسامہ وڑائچ جو قانون نافذ کرنے میں نمبر 1 کی حیثیت رکھتا تھا اور بیمثال خدمات ایبٹ آباد ، پشاور اور چترال میں انجام دیں اور خاص طور پر چترال میں غیر قانونی تجاوزات ہٹانے سے لیکر ایک تفریحی پارک کے قیام تک کاہائے نمایاں انجام دیئے۔
ان نمایاں شخصیات کے ہمراہ شہزادہ فرہاد عزیز جو اپنے کمزور اور ناتواں جسم کے ساتھ ساتھ فرہادکے عشق اور عزیز کی جرآت کا حامل محبتوں سے بھرپور دوستوں میں مقبول ، مہمان نوازی میں مشہور دوست داری اور وفا کا پیکر پیرا گلائیڈنگ کا نامور کھلاڑی اور والیٗ چترال کے کزن ہونے کے باوجود اپنے عظیم والد بزرگوار شہزادہ عزیزالرحمٰن بے غش اور محبتوں کے پیکروالدہ محترمہ کی زندگی میں بادشاہی قلعے کے سائے میں بے گھر ہونے کی زندگی گذار کر اور انتہائی مشکلات میں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کر کے دوسروں کو تعلیم دینے کے لئے سائیورج پبلک میں اپنے زندگی کے آخری لمحے تک پر خلوص خدمات اور نمایاں استاد کا کردار ادا کرتے رہے۔
تکبیر خان جنہوں نے بزنس کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور چترال کے باشندوں کے لئے کاروبار کی دنیا میں مثال قائم کی ۔اور محمد نواز خان جنہوں نے محنت مزدوری سے اپنے گھر کا چولہا جلایا اور بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی محمد خان ماہر تعلیم اور سلمان زین العابدین جیسے سماجی کارکنان جو بین الاقوامی دنیا میں بھی شہرت کا مقام رکھتے تھے اسی فلائٹ میں چترال کی کئی ایک نامور بیٹیاں سفر کر رہی تھیں اس ملک خداداد کو اس حادثے نے ان کی خدمات سے محروم کر دیا ۔ایسے ہی کئی ایک جوان بچیاں ،جوان اور بوڑھے اس حادثے کا صرف پی آئی اے کے کسی غیر ذمہ دار افسر کے حکم پر شکار ہوئے۔
جبکہ اس فلائٹ کی حالت چترال سے پشاور آتے ہوئے ہی خراب تھی جسے ہم سب مسافروں نے محسوس کیا تھا۔اور خاص طور پر چترال ،راولپنڈی کی فلائٹ کی خراب آواز کو چترال ٹاؤن اور ایون (Ayun)کے ہر گھر میں محسوس کیا گیا تھا آخر کس طرح جہاز کے انجنیئر اور دیگر عملے نے محسوس نہیں کیا۔کہتے ہیں کہ اس جہاز کو پہلے پنڈی سے گلگت پھر گلگت سے پنڈی اور پھر پنڈی سے چترال ، اور چترال سے پشاور اور پشاور سے واپسی پر پنڈی کے لئے پرواز کے لئے فٹ قرار دیا گیا۔
اور پھر اس خراب انجن والے جہاز کو سوات ، پشاور ، کامرہ یا کم از کم تربیلہ ڈیم میں اتارنے کے (Option) آپشن کے باوجود راولپنڈی لانے کے احکامات کس نے دیئے۔
کیا پی آئی اے کے پانچ لاکھ روپیہ فی کس ادائیگی سے ان خاندانوں کی کفالت ممکن ہے ۔ پی آئی اے کو تو اس جرم ناروا کے لئے پچاس لاکھ روپیہ کم از کم فی خاندان ادا کرنا بھی ان خاندانوں کی کفالت کے لئے ناکافی ہوگا ۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کوچاہیے کہ ان خاندانوں کے مستقل بحالی کیلئے پلاٹس اور ان کے بچوں کی ملازمت اور تعلیمی اخراجات کا معقول اور مستقل انتظام کا اعلان کریں۔ فلاحی حکومتیں ایسے موقعوں پر اپنے شہریوں کے دکھ کا مداوا کرتی ہیں اور یہ ہی مصیبت زدوں کی اشک شوئی کا سبب ہوتا ہے۔
اس اندوھناک واقعہ کے موقع پر ہزارہ کے باشندوں خاص کر حویلیاں کے باسیوں نے جس طرح سرعت سے جائے حادثے پر پہنچ کر اپنی مقدور پر جہاز پر لگی ہوئی آگ بجانے کی کوشش کی اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ چترال کے باشندے ہزارہ کی انتظامیہ آرمی اور سول آفراد کے رات کے اندھیرے میں جنازوں کی کلکشن اور سنبھال کر رات ہی کو ایبٹ آباد میڈیکل کمپلیکس پہنچا کر انکو سنبھالنے پر انکے شکر گزار ہیں اس موقع پر حویلیاں میں تعین TMO چترال کے سمیع الحق اور مانسہرہ میں متعین A.C مانسہرہ فدا الکریم کا اس موقع پر پہنچ کر پوری رات خدمات انجام دینا قابل تحسین رہا ۔ رات کو ہی چترال کے اکثر پشاور میں موجود افسران اور دونوں صوبائی ممبران ایبٹ اباد میڈیکل کمپلیکس پہنچ کر فوت شدہ گان کے سنبھالنے میں انتظامیہ کی مدد کی اور اسلام آباد سے تما م جنازوں کے چترال بھیجنے تک ان کے ورثا کے ساتھ ہسپتال میں موجود رہے ۔ ہزارہ ڈیژن کے کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور ہسپتال انتظامیہ کے ہمددرانہ رویے پر چترال کے باشندے انکے مشکور رہیں گے ۔ پاک آرمی نے اس مصیبت کے موقع پر جس طرح لاشوں کی منتقلی میں اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے ہم انکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
ا ب رہا متاثرین کی امداد بلا تاخیر کرنا اگرچہ یہ مالی امداد کسی کے والد بھائی سر پرست کے محبتوں کا متبادل نہیں ہوتا مگر انکی بر وقت امداد سے انکی مشکلات میں کمی کا سبب ضرور ہوتا ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے حادثاتی موت اور جل کر مر جانا شہادت کا درجہ رکھتا ہے لہذا انکی جنت میں مقام حاصل کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوسکتا یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔
جنید جمشید کی دعوتی خدمات اور انکی حب رسول کی گواہی دیتے ہوئے انکی عزمت کو سلام پیش کرتے ہوئے انکی درجات کی بلندی کی دعا ہر مسلمان کی زبان سے نکلنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں مگر ہمارے بزرگوں کا صرف انکو خواب میں دیکھ کر بیان دینا دیگر مسلمان مرحومین کی ورثا کے لئے کیا اثر رکھا ہوگا یہ وہی جانتے ہیں ۔ اللہ تعا لی اس حادثے کے تمام شہدا کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ امین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں