247

زندگی ادھر تو آ۔۔۔ہم تجھے گذاریں گے /تحریر: محمد جاوید حیات

زندگی اے زندگی۔۔۔لوگ کہتے ہیں تجھے گذارنا آسان ہے مگر لوگوں کا اتنا تجربہ نہیں ہوتا۔تجربہ کس طرح ہوجائے۔ سارے لوگ محلوں میں تو نہیں رہتے ہیں۔۔جھونپڑیوں میں بھی تو رہتے ہیں اصل تجربہ تو ان کا ہوتا ہے مگر تو بڑے شوق سے ادھر جاتی ہے جہان تو عیاشیوں ،سکوں، آرام اور موج مستیوں کا نام ہے۔۔ جہان تیرا گذارنا آسان ہے۔۔جہان بھوک پیاس کا تصور نہیں۔جہان پرانے کپڑوں ،پھٹے جوتوں ،پیوند لگے سویٹروں کا تصور نہیں۔۔جہان بچے بھوک کی وجہ سے روتے نہیں۔۔پیاس کی وجہ سے تڑپتے نہیں۔۔دھائی نہیں دیتے۔۔حسرت بھری نگاہوں سے کسی کی طرف نہیں دیکھتے۔۔جہان بیٹھنے کو صوفے ،سونے کو سونے کی پاؤں والی بیڈ،قالینچہ ،زربفت ،گاؤ تکیے ہوتے ہیں۔۔۔مٹی پر ڈھیر ہونا نہیں پڑتا ہے۔۔بچھونے ٹاٹ کے نہیں ہوتے ہیں۔سرہانے پتھر کی اینٹ رکھی ہوئی نہیں ہوتی ہے۔۔بارش کے چھم چھم کے ساتھ کچی چھت ٹپکتی نہیں۔۔ماں کو چولہا جلنے نہ جلنے کا غم نہیں ہوتا۔۔مزدوری پہ نہ جانے سے باپ کی جیب خالی نہیں ہوتی۔۔ماں باپ رشتہ داروں کی غمی خوشی میں جانے سے نہیں کتراتے۔۔منی کی گڑیا کی شادی پر ہزاروں خرچ کیا جاتا ہے۔۔گاڑی کے لئے خواب نہیں دیکھا جاتا ڈیمانڈ دیا جاتا ہے۔۔خواہشوں کو دبایا نہیں جاتا اٹھنے کی آرزو کی جاتی ہے ۔۔شاپنگ پہ جاتے ہیں۔کسی خریداری کے لئے ضروریات کو پرکھا نہیں جاتا۔۔آرزو کی تکمیل کیا جاتا ہے۔۔بچیوں کے لئے رشتے ڈھونڈے نہیں جاتے پرکھے جاتے ہیں۔۔ان کی صورت سیرت کو ناپا نہیں جاتا دولت کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔۔۔بیٹی کی ڈھلتی جوانی ماں باپ کے لئے عذاب نہیں ہوتا۔۔اس کے سینے میں اٹھتی جوانی کی مستیاں دبتی نہیں ہیں۔۔بیٹے کی کسی حرکت پر اعتراض نہیں ہوتا۔۔ ان کوپڑھایا جا تا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کے پاس کوئی صلاحیت نہیں۔۔اگر بہت لمبے بھی ہیں تو اس کے بال ٹھیک ہیں۔۔اگر اس نے پانچوں انگلیوں میں انگوٹی ڈالی ہے تو بھی ٹھیک ہے۔۔اگر کھانے کے دوران فون پہ کسی کو پیغام بھیج رہا ہے تو بھی ٹھیک ہے۔۔یہاں تجھے گذارنا کونسا مشکل ہے۔۔ہر کوئی تجھے گذار سکتا ہے۔۔مگر کسی کو تیری قدرو قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا۔۔تجھے پتہ ہے تجھے گالیاں دیتے ہیں۔۔تیرے ساتھ ناشکری کرتے ہیں۔۔تجھ پر اعتراض کرتے ہیں۔ہر اچھائی کو اپنی صلاحیت سمجھ کر سوچتے ہیں ہر برائی کو تجھ سے نسبت کرتے ہیں۔۔وہ تجھے گذارنا کیا جانیں۔۔تو ہمارے پاس آ ہم تجھے گذاریں گے۔۔ہم اپنی جھونپڑیوں میں تجھے خوش آمدید کہیں گے۔۔تجھے گلے سے لگائیں گے۔۔کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ موت و حیات کی کشمکش کیا ہوتی ہے۔۔۔مرمر کے جینے کا نام کیا ہوتا ہے۔۔ضروریات مجبوریاں کیا ہوتی ہیں۔۔دن اور راتوں کا تصور کیا ہوتا ہے۔۔ گرمی سردی کی سختیاں کیا ہوتی ہیں۔۔بارش کیا ظلم ڈھاتی ہے۔۔سیلاب زلزلے کیسے جھجھوڑتے ہیں۔۔موت آکر کوڑ کواڑ کس طرح کھٹکھٹا تی ہے۔۔ان ساری تلخیوں سے ہم واقف ہیں۔۔ہم تجھے افسردہ نہیں کریں گے ہم ہنس ہنس کر تجھے گذاریں گے۔۔تجھے ’’زندہ دلی‘‘ کا نام دینے والے بھول جاتے ہیں کہ تیری تلخیاں کیا ہوتی ہیں۔۔تجھے اسان کہنے والے تیرے پہاڑ ہونے کے تصور سے واقف نہیں۔۔ان کے پاس تجھے ہنس کے گذارنے کا فارمولا ہے۔۔وہ کہتے ہیں۔۔

نوروزو نوبہار ومئے دلبری خوش است۔۔
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارا نیست
لیکن۔۔لیکن ہم مر کر ختم نہ ہونے پہ یقین رکھتے ہیں۔ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم وہاں پر تیرا سارا حسب کتاب دینگے۔۔لمحے لمحے کا پل پل کا۔۔ورنہ تو ہم مر جاتے۔۔اگر یہاں ہی تیرا خاتمہ ہوتا تو ہم بھی تجھے نہیں گذار سکتے۔۔۔ہماری محرومیاں ہمیں بہت تڑپاتیں۔۔ہم تیرے ہاتھوں بے بس ہوتے۔۔کمال یہ ہے کہ زندگی تو دو دن کی ہے۔۔۔عارضی ہے۔۔اس لئے ہم تجھے گذار نے کی جرائت کرتے ہیں۔۔تجھے گذارنا اسان نہیں لیکن ہم تجھے گذارینگے۔۔ہم تیری قدر جانتے ہیں اس لئے تیرے پل پل کا حساب رکھتے ہیں۔۔نہ تو ہمارے لئے ’’اچانک‘‘ کا درجہ رکھتا ہے نہ موت ’’اچانک ‘‘کی حیثیت رکھتی ہے۔تو جھونپڑیوں میں آتیری قدر ہوگی۔۔تجھے امانت سمجھا جائے گا۔۔تیری حفاظت کی جائے گی۔۔ تو خوشی خوشی ہمارے پاس آہم تجھے گذاریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں