315

شہیدِ جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو…تحریر: سعدیہ دانش

  خبرپامیرٹمز

بے نظیر بھٹُو اسم بامسّمیٰ تھیں
وہ بے نظیر تھیں          صبر و استقامت میں
بے نظیر تھیں              جہد و عمل میں
بے نظیر تھیں              مردانہ وار حوصلگی میں
بے نظیر تھیں             سیاسی حکمت عملی میں
بے نظیر تھیں             جذبہء ،مفاہمت میں
بے نظیر تھیں             جمہوریت کے احیاء میں
بے نظیر تھیں             دلیرانہ خطابت میں
بے نظیر تھیں             دختران مشرق میں
دختر مشرق زنِ آہن بجا ہے دوستو
اُس کی خاطر شہر میں مقتل سجا ہے دوستو
یہ لہو رنگ چاندنی کس کی ضیا ہے دوستو
وہ رُخِ مہتاب ہلالی میں چھپا ہے دوستو

شہیدجمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے شہید باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوری اقدار کی تقویت اور عوامی جذبات کی نمائندگی کرنے میں کتنی کامیاب رہی تھیں اس بات کی تصدیق ان کے دشمن بھی کرتے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ ان جیسی بین الاقوامی سیاسیات کا شعور رکھنے والی خاتون پھر ہمیں مل نہ سکے گی ۔ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ۔

جدید دنیا میں بے نظیر کا تصور اسلام امن ،سلامتی ،خوشحالی ،مفاہمت اور مساوات پر مبنی تھا۔وہ مذہبی دہشتگردی کی سخت مخالفت اور “تمہارا دین تمہارے لےئے میرا دین میرے لئے “کے اصول کی پیرو کار تھیں ۔ان کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ اختلافات اور باہمی بے اعتمادی تشدد کا سبب ہیں ۔اس لئے وہ تکثیریت پسند فلسفہ حیات کی نمائندہ تھیں ۔مغربی ممالک کے مشہور جامعات میں ان کے لیکچرز کا بنیادی مقصد اسلامی تصور و عقیدہ کی وکالت تھا۔وہ ان کے ازہان سے اسلام کو تشدد پسند دین مٹا کر عالمی مساوات کا دین بنانا تھا۔اس لئے وہ کھل کر قدامت پسندانہ رویوں اور جاہلانہ قتل و غارت کے اقدام کو غیر اسلامی قرار دیکر ملک کے اندر ہی اپنے لئے دشمن بناتی رہی جو بلاآخر ان کی شہادت پر منتج ہوا۔

شہید جمہوریت ایک ایسی شیردل لیڈر تھیں جو غیر معقول تجاویز کو چاہے وہ کسی کی طرف سے پیش کئے گئے ہوں ۔یکسر رد کردیتی تھیں۔اسے اپنے نقد علم و حکمت اور سیاسی بصیرت پر پختہ یقین تھا۔وہ کہتی تھیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔انہوں نے دھاندلی سے برسر اقتدار آنے والی IJIکی حکومت کے دورانیے میں قائد حزب اختلاف کا کردار بخوبی نبھا یا تاآنکہ2012میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا کہ 1990میں ہونے والے انتخابات کو قدامت پسند IJIکی Engineered انتخابی دھاندلی قرار دے دیا۔

مارشل لاء کے دوران انہوں نے انتہائی ظلم سہے ۔کئی ماہ لاڑ کانہ اور کراچی کی جیلوں میں قید تنہائی کاٹی ۔ماں کو پابند سلاسل پایا ،بھائیوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا،شوہر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سزا بھگتنے کا عالم دیکھا۔مگر ان کے استقامت میں لخزش تک نہ آئی ،عزم و استقلال اور تحمل و برداشت کی پیکر بے نظیر بھٹو جانتی تھیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔ان کی غیر متزلزل جدوجہد نے ملک میں جمہوریت کی آبیاری کی اور تیسری دنیا کی خواتین کیلئے وہ ایک قابل تقلید مثال بن گئیں۔
آخر 27دسمبر کو انتہا پسند دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ہاتھوں دختر مشرق دن دیہاڑے لیاقت باغ میں شہید ہوگئیں ۔پاکستان کی سلامتی اور جمہوریت کی بقاء کیلئے جان قربان کرنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے ۔جب تک ان کا مشن مکمل نہیں ہوگا تب تک ہم عوامی حقوق کی جنگ لڑتے رہیں گے ۔
صلہ شہید کیا ہے
تب وتاپ جاودانہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں