488

موضوع نو…….                  کھوار زبان اوراس کی ادبی تنظیمیں

موضوع نو
تحریر: پروفیسرشفیق احمد

چترال کےآبادی کو چار ادوار میں تقسیم کرتےہوئے اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔ پہلا دور آرئین سے قبل کا زمانہ ہے، اس دورکے باشندے پاسیچا یا داردک کہلاتے

                 چترال کےانسانی آبادی کو چار ادوار میں تقسیم کرتےہوئے اس کا جائزہ لینے کی  کوشش کرتے  ہیں ۔ پہلا دور آرین سے قبل کا زمانہ ہے، اس دورکے باشندے” پاسیچا یا داردک” کہلاتے ہیں ۔دوسرا دور آرین کے بعد ۲۵سو قبل از مسیح میں موجودہ نسل کے مہذب باشندے  آباد ہوگئے ۔تیسرا دور اسلام کی آمد کے بعد کا ہے،کیلاش قبیلے کےکچھ بچےکچےافرادکےعلاوہ اس وادی کےبیشترباشندے مسلمان ہو گئے۔چوتھا  دور موجودہ برق رفتار ترقی اور ٹیکنالوجی  کا زمانہ ہے  ،جو انسان کو سہولیات تک رسائی  کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بھی پیدا کرانے کا باعث بھی بنا ہے ۔ چترال کثیر لسانی اور کثیر نسلی  وادی ہے ،اسی وادی  میں کل مِلا کر سولہ زبانیں بولی جاتی ہیں ۔کھوارزبان  اسی وادی میں  رابطےکی واحد بڑی یھ زبان ہے۔ کھوار  زبانوں کے ہند آریائی گروپ کےداردک خاندان سے تعلق  ہے۔اس میں فارسی ،ترکی،سنسکرت اور پشتو وغیرہ زبانوں کے الفاظ شامل ہیں۔کھوار لوک ادب کے ذخیرے کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وادی کے قدیم باشندے فنون لطیفہ کے ذوق شناس تھے۔یہاں کی لوک کہانیاں،لوک شاعری،اس کےغمازہیں۔ کیونکہ انسان فطری لحاظ سےاپنے جذبات واحساسات  کے اظہارکرنے کے بعد  قلبی سکون حاصل کر لیتا ہے۔ یقیناً  انسانی فطر ت بدلتی نہیں ہے،انسان  اپنے جذبات واحساسات کا اظہار ابتدأسےکرتا   آیا ہے۔ انتہائی قدیم لوک کہانیاں اور گیتیں (شلوغ ،باشونو)موجود ہیں، جو انتہائی قدیم دور کے تہذیب ومعاشرت کی عکاسی کرتے ہوئے دیکھائی دے رہی ہیں ۔اس کے علاوہ وسطی دور کے کلاسیکی گیت کافی تعداد میں موجود ہیں ،اِن گیتوں کو کھوار کے قدیم و  جدید دور کے موسیقار گاتے رہتے ہیں ۔

کھوار لوک ادب:

لوک ادب کا مطلب وہ قدیم  قصےاور گیت  جو سینہ بہ سینہ ،نسل در نسل منتقل ہوتےآتے ہیں۔انکےکہنے والوں کے نام ،زمانہ  معلوم نہ ہو۔ہو سکتا ہے،باہر سے آنے والے باشندوں کے ساتھ غیر زبان کی گیتیں و قصے  کھوارزبان  میں  منتقل ہو چکے ہونگے۔اس قسم کے بے شمار قصے کہانیاں (شلوغ) موجود ہیں, ان کا ایک ایک  کر کے نام لینا مشکل عمل ہے۔(البتہ” ڈآکٹر ایلینا بشیر” نے اس حوالے سے  کہوار کےبے شمار قصے(شلوغ) کومقامی لوگوں کی زبانی ، ریکارڈ بھی کروائی ہے اور اس پر تحقیق کرکے   شائع بھی کر چکی ہے  اس سے بھر پور استفادہ،اس حوالے سے ہم حاصل کر سکتے ہیں )ان قصوں کا زیادہ تر تعلق دیو ملائی یعنی مافوق الفطرت عناصر پر مشتمل  ہوتے تھے ۔  کچھ قصوں کا تعلق   میرے آبائی گاوں رائین کے متعلق ہیں ،اس میں دو قصے بہت مشہور ہیں ۔پہلا قصہ  قلمدار بوتینی بوہت اور دوسرا قصہ شاموخی بوہت کے بارے میں ہیں ۔قلمدار کا مطلب  بھوت،دیو اور جن وغیرہ کےہیں ، قلمدار  کا دیو ہیکل پتھر   پربسیرا تھا یا یوں کہئےاس کیImage may contain: outdoor

ملکیت تھی۔روایت کے مطابق قلمدار  وقتاًفوقتا راہگیر وں کو پکڑ کر نگل لیتا تھا اور یہ سلسلہ چلا آرہا تھا ۔راہگیروں کی زندگی اجیرن تھی۔روایت کے مطابق آخیر کار اسلام کی آمد کے بعد ایک بزرگ نے، اس کو پتھر میں قید کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش  میں ، دیو اور بزرگ کے درمیان سخت کشمکش رہی بلاخربزرگ  اسکو بڑے  پتھر میں قید کرانےمیں کامیاب ہو گیا،    لیکن اس  کشمکش میں بزرگ اس خوف ناک  قلمدارا کے  خطرناک دانتوں سے زخمی ہوکر گرتے پڑتے تقریباًپانچ سو فٹ کا فاصلہ طے کر نے کےبعد جام شہادت نوش کیا۔ روایت کے مطابق اس کی قبر اب بھی وہیں پرموجود ہے  ،اس میں پہلے سفید کپڑےکا  جھنڈا(توغ) لہرایا جاتا تھا, لیکن آج کل وہ جھنڈا(توغ)بھی غائب  ہے البتہ قبر موجود ہے، یا     شاید لوگوں کی تواہم پرستی میں کچھ کمی آئی ہے ۔اسی بڑے پتھر کے شمالی سمت میں ، قلمدار کے ناف ،بازوں ،پیٹ وغیرہ کے نشانات بھی بتائے جاتے ہیں،بلکہ روایت کے مطابق ہنوز ایک بوڑھے کو اس کے قریب سےدیکھنے کے بعد پھرپُراسرار طریقے سے غائب ہونے کےقصے بھی سننے میں آئے ہیں۔ پتھر کے مشرقی سمت میں جے ورمن بادشاہ(بہمن کوہستانی) دور کا سٹوپااور قلعے کا نقشہ موجود ہے، اسی طرز کےسٹوپا سوات اوڈیگرام میں  صحح سالم حالت میں موجود ہے۔یہ بڑا پتھر دریا تریچ اور دریا تورکہو کے سنگم میں رائینکے مقام پر  موجود ہے ۔مُحقین اس کومغربی سمت سے آنے والے دریا کے راستےسے آیا ہوا پتھر قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ اسیساخت کے پتھر ، مشرقی اور شمالی سمت میں کہیں بھی موجو د نہیں ہیں،بلکہ تیریچ وادی میں اسی ساخت کےپتھر  ملتے ہیں ۔یقیناً کسی گلہشئیر کے ٹوٹنے کے نتیجے میں سیلابی ریلےکے ساتھ آکر اسی سنگم میں نصب ہوچکا ہوگا ۔

                 رائین گاوں کے آغاز میں آنے  والا  شاموخی بوہت)پتھر)کے بار ے میں یہ قصہ مشہور ہے ۔ اس کے بارے رابرٹ سنImage may contain: mountain, outdoor and nature

نے اپنی کتاب “چترال ،مختصر محاصرے کی کہانی” میں اشارہ دے چکا ہے۔روایت کے مطابق انتہائی قدیم دور میں   ایک بیٹے نےاپنی  ماں اوربیوی  کی لڑائی سے تنگ آکر،جب تصفیے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اس نے دونوں کوایک  بڑ ے  پتھر کے اُپر لے جاکر  یکے بعد دیگر ،ایک دوسرے  کے اُپر ڈال کر ذبح کیا تو اس وقت بھی ان دونوں کے خون ایک دوسرے کو قبول نہیں کئے ،منبع ایک ہی ہونےکے باجود الگ الگ راستہ بنا کر نیچے آئے ہیں۔ اس کے نشنانات دو کالے دھاروں کی شکل میں وہیں   پرآج بھی   موجودہیں ۔اس قسم کے بے شمار واقعات،  قصے کہانیاں اور گیت بھی  ہونگے ،ان کو اکٹھا کر کےہم قدیم زمانے کے باشندوں کے احساسات ، جذبات ، بودو باش اور ثقافت کے بارےمیں معلومات حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ اپنی کھوارزبان واادب کو بھی اسی روشنی میں   ترقی دے سکتے ہیں ۔

لوک   شاعری میں  مشہورگیت “غورو “جو اس زمانے کےلوگوں کی تواہم پرستی اورفوق الفطری عناصرخاص کر جن پریو ں کے بارے میں ان  کے تواہمات کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے ۔روایت کے مطابق   مارخور (شارا)آئِبیکس(تونیشو) وغیرہ جنات کی بکریاں ہوتی ہیں ۔چونکہ شکاری کا تعلق جنات کے ساتھ استوار ہونا ضروری ہے اگر جنات ناراض ہوجاتے ہیں تو جانی و مالی نقصان  پہنچانے کے قصے، ہم بھی کئی مرتبہ سن چکے ہیں ۔اسی زمانے کے توہم پرستی سمجھے یا حقیقت، لیکن شکاری   جب کسی جنگلی  بکرےکا شکار کرتا ہے ،تو شکار کو اُسی  جگہے سے لیکر گاوں میں داخل ہونے تک ،یہ گیت گائی جاتی ہے اور شکار مکان کے روزن کے راستے گھر کے اندر داخل کرتے ہیں ۔گیت کے کچھ حصے اس طرح   سے ہے۔

                          Image may contain: outdoorنانئے نانئےاف ہیرا کا گویا                 نانو ژانئے انو پژال نوا
نانئےنانئےہو کاڑی تھوئیک شیر                   نانو ژانئے انو اورینی نوا

                                نانئےنانئےتھوئیک ڑاپھئیکہ پرائے              نانوژانئے یورو شخری نوا

                                نانئےنانئے تا پازو لئےگویان                         نانو ژانئے تمبوسو خیل نوا

                                نانئےنانئے چھوان کیا ساتیر ؟                       نانو ژانئے بو لوٹ خدائے ساتیر

                                نانئےنانئے چھواں پون کوررینے شیر              نانو ژانئےزومو پا ڑین نوا

اس سے اندازہ  ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ان جانوروں کو فطرت کا حصہ اور
اس کو کسی کی ملکیت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس دور کےلوگ فطرت  کو بھی خوب سمجھتے تھے اور اس کو محسوس کرتے ہوئے اسی نظم میں مارخور کی اپنے بچوں کے سوالات کا جوابات  دینا ،ان سےمحو گفتگو ہونا ،ان کو مرتے دم تک  دلاسا دینا ،کہیں شکاری کو گڈریااور بندوق کو اس کے دیگر آوزار قرار دینا   ،اپنے بچے کے دردناک سوال کے جواب میں خدا کو سونپنا اورآخیر میں اس کو راستہ دیکھانا سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور کا شاعر  مارخور اور اس کے بچے کے درمیان خوبصورت پیرائے  میں مکالمہ کرایا ہےاور انسان کو اپنے  اور فطرت کی خوبصورتی کا دشمن قرار دینا اس زمانے کی ذہنی پُختگی کی طرف اشارہ دے رہاہے۔   اس زمانے میں  بھی لوگ اسی سنگلاح   پہاڑوں کے بیچ بھر پور ادبی  وثقافتی زندگی گزار رہے تھے ۔بے شک سہولیات تک رسائی نہ ہونے کے برابر تھی،اس کے باوجود  اسی معاشرے میں کسی نہ کسی طرح ادبی و ثقافتی رنگ پائی جاتی تھی۔  اس زمانے کے باشندے اپنی جذبات کے اظہار کے لئے شاعری کا انتخاب کرتے تھے کیونکہ شاعری عرب میں عروج پر تھی اور موجودہ چترال ،وسط ایشأ اور چین   کی شاہراہ ہونے کی سبب عرب اور فارس  کے ادب سے بھی اثرات لیتی رہی ہے۔( یقیناً(CPEC سی ۔پیک )منصوبہ ایک بار پھر ہماری ادب کے ساتھ ساتھ ہماری اسلامی  تہذیب وثقافت کو  متأثر کرے گا اس کے لئے ہمیں آگاہ رہنا پڑے گا ہم گلگت والوں کی نسبت زیادہ متأثر ہو کر قبولیت حاصل کرنے میں یکتا ہیں لہذا گلگت کے طرز پر ہمیں بھی اپنی ادبی ثقافتی رنگ کو اپنانا  کرImage may contain: outdoor ترقی کی خوابیں دیکھنا چاہیئے  ۔)اس کے علاوہ بہت لوک  ادب میں بے شمار قصے موجود ہیں جن کا ایک ایک کر کے نام لینا مشکل ہے البتہ اُن میں  لوک ژور و،نان دوشی ،پھستوک ،نوہتک ،ہوپ گئے وغیرہ   گیت موجود ہیں  ۔ان تمام  لوگ گیتوں پر  آنےوالے مقالےمیں  ایک ایک کرکےتفصیل کے ساتھ بحث  کرینگے۔

کھوار  کلاسیکی ادب:

کلاسیکی ادب میں  وہ  قدیم ادب پارے”  گیت ،اصناف شاعری ،نثری اصناف “اآتے ہیں جو اپنی پائیدار خصوصیات کی بناء پر نہ صرف اپنے دور بلکہ انے والے وقتوں کے لئے بھی قبول عام کی سند رکھتے ہوں آتے ہیں۔ ۔کھوار کلاسیکی ادب میں مثال کے طور پر  ننو بیگال ،ڈوک یخدیز ،بابا سیارکےیارمن ہمین ،سنوغر ملنگ زیرک کے گیتوں آمان کے خوش بیگم ،گل اعظم گلو،شیر ملک،یارخون کے حکیم کے دانی،ناصرالملک مہتر کے دانی،چرنو لالو کے گیت،مرزا چارویلو  کے گیت،مستوجو چارویلو کے گیت   وغیرہ  شامل ہیں ۔کھوار کے ان کلاسیکی ادب پاروں کے مطالعے سے  ہمیں  اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور  شعرا شاعری کے فن کے اسرارو رموزسے مکمل طور پر واقف تھے۔ اُن شعراءکےکلام میں غم جاناں کےساتھغم دوراں  تذکرہ بھی نہایت لطیف پیرائےمیں ملتا ہے۔ زیرک سنوغر ،گازو اور استارو  تینوں  گاوں الگ الگ وادیوں میں واقع ہونے کے باوجودگازو سے ان تینوں گاوں کا نظارہ کیا جاسکتا ہے  اسی نظارے  کو خوبصورت انداز میں یو ں منظر کشی کی ہے۔

؏ گازو  اوچو استارو رے بطن کھاڑ ای ترازو       زیرکو خفستور استارو میرانو گازو

ان شعرأ میں  شوگرام سے تعلق رکھنے والا ،بخارا کا طالب علم بابا سیار اپنےگاوں کے اُپر  پہاڑی (زومان سور)کےراستے سے  بخارا کی جانب جاتے ہوئے گیت میں یوں گویا ہے !

 ؏ زومان سورین بغاتم            قونان سورین بغاتم

یقیناً پیدل کے  زمانےمیں  اپنے گھر کو چھوڑنا،کئی سال بعد واپس آنا  اور دوسری طرف اس کے گلابی  ہونٹوں والی، نرم ونازک محبوب   کو چھوڑ کر  تعلیم کے لئے بخارا کی جانب سفر کرنا واقع کسی انگارے کے اپرسےگزرنے سے کم نہیں ہے۔ کہوار زبان و ادب  جب تک زندہ  رہے گی اس وقت تک اس کی اہمیت کم نہیں ہوگی۔اس سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس زمانے میں شغرأ شاعری کے فن کو سیکھ کر شعر کہا کرتے تھے اسی دور  کے زیادہ ترشغرأکاتعلق  ان پڑھ طبقے سے تھا۔ جو کسی بھی قسم کی رسمی و غیر رسمی علوم سے نا واقف تھے۔ اس کے باوجود بھی ،یقینًا فن میں یکتا کسی شاعر   کے پاس جاکر اپنی شاعری  کی درستگی  کیا کرتے تھے۔اگرچہ انکی شاعری ایک مقامی زبان میں تھی اسی بنأ پر وہ دیگر زبانوں میں گمنام رہے۔ البتہ انکا دیگر زبانوں کے شعرأ کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے گا تویقیناً دنیا کی بےثباتی ،احترام انسانیت ،محبوب کے لب ورخسار ،پھول کی خوبصورتی تشبہات واستعارات ا، صنعتوں ،تراکیب اور محاورات کا بر محل استعمال  ایسے پُر کاری کے ساتھ کئے ہیں ،تو یقیناً  ہمیں  میر ،ولی ،درد وغیرہ کے ہم پلہ شغرأ کی نشاندہیان میں سے کر سکتے ہیں ۔جیسا کہ شاعر  شیرملک نےکیاخوب کہا ہے ؟

 ؏                        مایونے مو چوڑے کی ما دینار اورای اسور          تو تانتین پُر اولی بیس ژانو نس بوئےماسار خفا

 محبوبہ محو خواب ہے بہار کا موسم   جوانی کی نیند، پھر مایون پرندے کا چنار کے درخت پربیٹھ کر چہچہانے کو  محبوبہ کے خواب ناز میں خلل گردانتے ہوئے کھتےہیں کہ آپ کے چہچہانے سے میری محبوب جاگ جائے گی،اس کی نیند خراب ہو جائے گی،اس کے بعد آپ اڑ کر چلے جائیں گے لیکن میری نازک طبیعت والی  محبوبہ مجھ سے خفاہو جائے گی۔  میں اس زمانے کے ان شعرأ کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں اپنے جذبات کا اظہار کر کے اسی زمانے کے رسوم ورواج اور تہذیب وتمدن کے بارے میں آگاہی دی ہیں ۔اگر یہ شعرأ اور قصے کہانیاں نہ ہوتیں تو ہمیں اس زمانے کے بارےمیں اگاہی  ہر گز نہ ملتی ۔نثر  اور اافسانوی ادب میں  کام نہ ہونےکے برابر ہے لہذااسی  شعبے میں بے شمار داستان ،ناول اور افسانے ہونگے انکی چھان بین کر کے  سامنےلائے جاسکتے ہیں ۔لہذا کہوار ادب میں افسانوی ادب کی ارتقأ کے حوالے سے   کام کے آغاز کی ضرورت ہے۔تاکہ ہمارے نوجوان شعرأ ان کہانیوں کے اصناف میں فرق قائم کر سکے۔

کہوارادب  اور اسکے ادبی تنظیمیں :

جس زبان کی ادبی تنظم نہ ہو یقیناً اس زبان کی ترقی کے رفتار میں سستی کےساتھ ساتھ اس کےمعدومیت  کے شکار ہونے کا بھی خطرہ پیداہو جاتاہے۔ ہم بچپن سے”انجمن ترقی کہوار “کا نام سنتے آرہے ہیں۔کسی زمانے میں انجمن کےارکا ن فعال کردار ادا کر تے ہوئے دیکھائی دے رہے تھے۔ “جمہور اسلام کہوار” کے نام سےرسالہ بھی نکلتا تھا، ایک  مرتبہ  انہوں  نے”بین الاقوامی ہندکش کلچرل کانفرنس ” کا انعقاد کرانے میں بھی کامیاب ہو چکے تھے۔ ان دنوں رجسٹرڈ تنظیموں کی کل تعداد چار ہو گئی ہےہوسکتا ہے مستقبل میں اس میں اضافہ بھی ہوتا جائےگا۔لہذا چار مختلف دبستانوں کی موجودگی میں مختلف مکتبہ فکر کے شعرأ اورادبأکی نمو ،کہوار ادب کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ   نقصان کابھی باعث  بن جا یئنگے۔اس میں سب سے بڑا مسئلہ مبصرین کے لئے پیدا ہوگا کیونکہ  کسی بھی تنظیم کی کارکردگی کو آزادی کے ساتھ جانچ پڑتا ل نہیں کر پائیں گے ۔کیونکہ کہوار ادب محدود علاقے میں محدود باشندوں کی محدود  زبان ہے۔ اس سے ہم اردو و دیگر بڑی زبانوں کے ساتھ موازنہ کر کے انجمن زدہ نہیں  بناسکتے ہیں ۔ لہذا ہمیں اپنی زبان کو انجمنوں میں تقسیم کر نے کے بجائے ان تمام انجمنوں کو  اپنے بزرگ شعرأ اور ادبأ کی سرپرستی  میں  یکجا  کرنے کی ضرورت ہے  ۔کیونکہ موجودہ وقت میں کھوار زبان کے نام سے وجود میں آنے والے تنظیموں کی بروقت روک تھام نہ کی گئی  تومستقبل میں  کہوار زبان کے نام سےوجود میں آنے والے   تنظیمیں  اداروں کی شکل اختیار کر کے ،محصوص گروہ کےلئے آمدنی کا  ذریعہ بن کر،اپنے اصلی مقصد کھو بیٹھیں گے۔علاقائی زبان و ثقافت  کا شعبہ حساس شعبہ ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  مختلف قسم کےسوالات جنم لینگے۔لہذا بزرگ  ادبأ کو اس میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ وقت میں  سب کی کارکردگیبہتر ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنظیموں میں  اضافے کے باعث اختلافات بھی جنم لے سکتے ہیں ۔لہذا ہمیں ان سب کو یکجا ٔ کر کے اس پر قانون سازی کی ضرورت ہےتاکہ مزید کہوار  زبان وادب کے نام سےتنظیم  کوئی نہ بنا سکے بلکہ  اسی انجمن کے زیر نگرانی  کسی کو کام کرنے کی اجازت دی جائے اور انکی کڑی نگرانی کی جائے۔

میرے کہنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں کسی کے کردار پر شک کررہا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم  سب کہوار ادب کو ترقی دینا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ تربیت کا ہے۔۔۔۔ اگر روز بروز تنظمیں بنا کر آگے بڑھتے رہینگے تو ہم کرسی کی فکر میں اپنا سب کچھ کھو  بیٹھیں گے۔ ہمیں ہر گز اس کو مالی اور ذاتی فائدےیا دیگر مقاصد  کے لئے استعمال سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ شعرا ٔاور ادبأ کی مالی حالت اس لئے خراب ہوتی ہے وہ اپنی ساری توجہ پیسے کے بجائے فن کو دیتے ہیں  ۔ اگر ہم نے اپنی انٔا کو نکال کر سب ایک ہو کر ان تمام تنظیموں کو ایک چھتری  کےنیچے نہیں لائینگے ، تو ہم ان تنظیموں کو کسی اور مقاصد کےلئے استعمال کر کے اپنی زبان اور ثقافت کو شدید نقصان پہنچائیں گے۔ میں ان تما م بزرگ شعرا ٔ اورادبأسے اپیل کرتا ہوں کہ آپ صاحباں اپنے نوجوان شعرأ اور ادبأ کی مناسب راہنمائی کرے، آپ کو چاہئے کہ کُرسی نوجوانوں کو حوالہ کر کے سر پرستی اور استادی کے مسند کو سنبھالےاور شاگردوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اساتذہ کو مولانا روم جیسی وقعت  بخشے۔انجمن کے اندر مختلف شعبے قائم کرکے پھر ان شعبوں کے صدور منتخب  کرے ۔ مثال کے طور پر شاعری میں کسی شاعر کو اس کا صدر بنائے وہ کہوار شاعری کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کی بھی تربیت وراہنمائی  کرے ۔نثر کے شعبے میں کسی لکھاری کو اسکا صدر چن لےتاکہ نثری حوالے سے کہوار اور اردو نثر نگاروں کی تربیت و راہنمائی کرے ۔ثقافتی شعبہ کے لئے اسی شعبے سے تعلق رکھنے والے شحص کو اس کا صدر بنا یا جائے تاکہ وہ  ثقافتی و تہذیبی حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گا ۔زبانوں کے بارے میں بھی  ماہر لسانیات میں سے   اس کا صدر منتخب  کرے ۔ اس میں اردو ،انگریزی ،عربی فارسی اورچینی  زبان  وغیرہ سیکھنے کی مناسب بندوبست  ہو سکے۔ تاکہ وہ انکی راہنمائی کے ساتھ ساتھ زبان دانی کی تربیت بھی  فراہم کرے گا ۔انفارمیشین ٹیکنالوجی کا بھی شعبہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔  اس میں آن لائین اخبار کے اجرأ کی جائے متعلقہ کسی صحافی کو اس کا صدر بنایا جائے ۔اسلامی حوالے سے بھی معاشرے کے راہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سےدونوں مسالک سے تعلق رکھنے والے علمأٔ  کو شامل کیا جائے ۔ تاکہ وہ شعبہ ،اسلامی حوالے سے قوم کی راہنمائی کرے گا ۔عورتوں کا شعبہ بھی قائم کر سکتے ہیں اس میں شعرأ ، ادبأ اور دینی علوم سے وابسطہ خواتین  موجود ہیں جو معاشرے میں عورتوں کے مسائیل سے آگاہی کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوںمیں  انکی راہنمائی کرینگے  ۔اسی تنظیم کا نام وہی پرانا  انجمن ” انجمن ترقی کہوار ” کو ہی  برقرار رکھے۔  اس کا صدر ان تمام شعبوں کا ذمہ دار ہو گا ۔اور ان تمام صدور کو باقاعدہ اتفا ق رائے اور اہلیت کی بنیاد پر منتخب کی جائے۔بلکہ چترال کے اندربولی جانے والی  تمام زبانوں  کے لئے بھی شعبہ قائم  کرنے ضرروت ہے۔تاکہ ہمیں  داردک خاندان سے تعلق رکھنے والےقبیلوں کے تہذیب وثقافت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔ایک منظم، فعال تنظیم  کے زیر  تربیت  نہ آنے  کی واضح مثال اور ذہنی نا پختگی کا  مشاعروں سےپتہ چل جاتاہے، بعض ماہرلسانیات کی زبانی  ڈانٹ بھی پڑتے ہو ئے ہم دیکھ چکے ہیں ۔ہمیں چاہئیےکہ ہم ان تمام اصناف کے بارے میں بنیادی  آگاہی  حاصل کر نے کےبعد  طبع آزمائی کی اور سٹیج تک رسائی کیاجازت   دی جائے، تو اس کا بڑا فائدہ ہو گا اورخیالات  میں  پُختگی بھی پیدا ہو جائے گی پھر ہم اپنے معاشرے کےاصلاح اور ثقافت کی تحفظ کرنے  کےقابل بھی  ہو جائینگے۔

انجمنوں کی بُہتات اور ذمہ داریوں سے روگردانی :

آج ادبی انجمنوں کی بھرمار کی وجہ سے ذمہ داریاں ایک دوسرے کےکندھے پر ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں حالانکہ کھوار ادب کے لئے  معمولی کاوش کوبھی ، چھاپنے کی ذمہ داری انجمن کے متعلقہ شعبے کے پاس ہونا چاِہئے ۔ان دنوں محترم ظفراﷲ پروازصاحب  کے کہوار کا پہلا ناول “انگریستانو”کےمنظر عام پر آنے کے بعد اس کو پذیرائی نہیں ملی ۔)میاسی کہانیImage may contain: one or more people“انگریستانو” کو “ناول ” قرارا دینے والاپہلا شحص ہوں البتہ مصنف  نے مجھ پر اعتماد نہ کرتے ہوئے،تو  دیگرسے رابطہ کیا  توانکی زبانی بھی ” ناول” نام سننے کے بعد مجھ پر بھی اس کا بھروسہ بڑھ گیا ۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے پورے چترال کا شکریہ ادا کرکے صرف  میرا اور ممتاز حسین صاحب کا نام نہیں لیا ہے ،بہر حا ل ہم اس کی خدمات کو سلام پیش کررہے ہیں کیونکہ ہم اس کے دل میں بس رہے ہیں )ناول کو پذیرائی نہ ملنے کی اصل وجہ یہی ہو گی کہ مصنف  کارابطہ  کسی حاص  تنظیم  کے ساتھ ہو گا ۔ اسی بنأ پر اس کو اہمیت نہیں ملی یا اس کے چھاپنے  کے سلسلے میں کسی ادبی تنظیم نے مدد کی ہوگی ۔ا س لئے وہ کتاب  شائع  ہونے کے تین مہینے بعد بھی اسکی تقریب رونمائی  کے لئے کسی بھی ادبی تنظیم نےدلچسپی ظاہر نہیں کی، ا سے ہم ا ندازاہ لگا سکتے ہیں کہ ہر ایک کو  ڈیڑھ انچ کی مسجد الگ تعمیر  کرنےسے  کس قسم کے نقصانات کا سامنا ہوا۔اس سے مصنف کو کتنی ذہنی کوفتگی پہنچ چُکی  ہوگی ۔یہ الگ بات ہے کہ ظفر اﷲ پروازاز صاحب ایک مظبوط اعصاب کا مالک شخص ہے ،چترال میں پذیرائی نہ ملنے کے بعد کچھ کتابیں  ساتھ لے کر پشاور پہنچ چکا ہے اور دبئی تک جانے کا ارادہ ہے ۔سننےمیں آیا ہے کہ ان دنوں “انجمن ترقی کہوار حلقہ پشاور نے نئی کابینہ کے حلف برداری  کے موقع پر “انگریستانو “کی تقریب رونمائی کو شامل کرنےکا احسن فیصلہ کرکے اپنا حق ادا  کیا ہے۔ اسی کتاب کو منظرعام پر لانے میں جاوید اقبال صاحب کا ذکر نہ کرنا اس کے ساتھ زیادتی ہوگی  کیونکہ اس نے دن رات ایک کر کے زبان و بیان کی درستگی سے لے کر کمپوزنگ اور ڈیزائین ترتیب دینے تک اس کا خون پسینہ شامل ہے۔اصل میں جاوید صاحب زبان و ثقافت  دوست انسان ہے ، اسی کتاب کے اندر ہماری ثقافت محفوظ ہے مصنف جس پُرکاری اور فنی محاسن کا خیال رکھتے ہوئے ، ہماری ثقافت کی عکاسی کی ہےاس سے ہمیں قدیم زمانے کے رہن سہن ،بودوباش ،رسوم ورواج ،غمی خوشی ،ہمدردی ،علاج معالجہ ،توہمات وغیرہ یعنی قدیم دورکے باشندوں کے سفری اور دیگر مُشکلات کے بارے میں آگاہی ملتی ہے ۔اگر اسے  اردو کے اعلے ناول کےساتھ  موازنہ کیا جائے تواردو کے کسی اچھے ناول کا ہم پلہ ا قرار دے سکتے ہیں ۔  ناول کی دوسری خوبی یہ ہے اس میں کھوارزبان کے قدیم الفاظ محفوظ ہو چکےہیں ۔جن کے بارے ہمارے بزرگ بھی ناواقف دیکھائی دے رہے ہیں ۔میں  ایک  لفظ کی وضاحت کر کے آگے بڑھوں گا لفظ “انگریستانو”کہوار زبان کا لفظ اور پرواز صاحب کے ناول کا نام  ہے، اس کا مطلب یہ ہے  کہ اس  زمانے میں ماچس یا آگ جلانے کا کوئی جدید نظام نہیں تھا ۔لہذاایک کامیاب سلیقہ مند عورت رات کو سوتے وقت اپنی انگھیٹی میں ایک ادھ جلی ہوئی لکڑی کو راکھ کے اندر رکھ دیتی ہے۔ پوری رات راکھ کے بیچ میں سےدھواں اٹھتی رہتی ہے اور صبح سویر ےوہ عورت پھونک مارکر آگ جلاتی ہے۔ دوسری طرف  بے سلیقہ عورت کو کہوارزبان  میں ”  وے انگریستانو”کہتے ہیں یعنی اس نے انتظام کئے بے غیر سو گئی ہو گی ، اس وجہ سے وہ عورت دوسروں کے گھر  صبح سویرے انگاروں کی تلاش میں نکل کر پڑوسیوں کا دروازہ کھٹکٹائے  گی ۔تو لہذا ادھ جلی ہوئی لکڑی جس  کو  رات گئے خاکستر میں دبا کر اگلے دن کیلئے آگ کا ساماں کیا جاتاہےکو کہوار زبان میں “انگریستانو”کہتے ہیں ۔اب اس قسم کے بے شمار الفاظ جو آج کل متروک یا انگریزی زدہ ہو چکے ہیں انکی تلاش میں ہمیں بڑا  فائدہ ملےگا ،تاکہ ہم اپنی زبان میں بے جا اجنبی  الفاظ  کو شامل ہونے سے روک سکے ۔لہذا ہمیں چاہئے تھا کہ ہمارے پاس انجمن  ،وسائل  ، سرپرست ،لائیبری ،ہال اور دیگر سہولیات دستیاب ہوتے، تو  آج ہم اس قسم کی کاوشوں اور شاہکارپر کئی نشستوں ،سیمینارزاور ورکشاپس  کے ذریعے نوجوان نسل کوآگاہی دے  دیتے۔ آج کل چترال کے ادیب اور مصنفین ایک فعال ادبی تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبورہو چکے  ہیں۔کل ایک معتبر شحصیت نے مجھے فون کر کے پوچھا کہ کچھ نوجوان میرے پاس آئے ہیں، کہوار کے انجمن کے دفتر کا پتہ پوچھ رہے ہیں وہ کہوار کے تمام “شلوغ “قصے کہانیوں کو انگریزی میں  ترجمہ کرنا چاہتے ہیں ۔مجھے بہت افسوس ہوا کہ آج کا نوجوان اسی  انجمنستان میں انجمن  کے  دفتروں کا پتہ پوچھ رہے ہیں ۔معلوم نہیں، کیا وہ دفتر تک پہنچ گئے کہ نہیں ؟پہنچنے کے بعد انکو کوئی ملا کہ نہیں؟ ملنے کے بعدجوانوں کو حوصلہ ملا ہے کہ نہیں ؟ لہذا ہمیں انجمنوں کے دفترو ںکو  ضم  کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ قدیم دور میں انجمنیں نہیں تھے لیکن کہوار کے اعلے پائے کے شعرأ پیدا ہو ئے آج کل انجمینوں کی بھر مار ہے لیکن ادبأ،شعرااور کُتب بین ٔ پیدا نہیں ہو رہے ہیں ۔لہذا ہم سب کو مل کر ا”انجمن ترقی کہوار “کو کو فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔کہوار زبان بولنے والے سب اس کےممبر ہونے کا حق رکھتے ہیں,کسی کو کوئی بھی  ممبر شب سے نہیں روک سکتے ہیں لہذا ادیبوں ،لکھاریوں ،شعرأ،کتب  بینوں اور  مقرروں  پر مشتمل افراد کو مستقل ممبر شب دی جائے باقی تما م کہوار زبان بولنے والے افراد کو غیر مستقل رُکن کے طور پر انکوتسلیم کریں اور ان سے چندہ بھی وصول کریں اور دفتر کا پتہ بھی جلی خروف کے ساتھ  لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔اس طرح ہم اپنے انجمن کو ایک منافع بخش ادارہ بھی بنا سکتے ہیں اورہم اپنی زبان وثقافت کی تحفظ کے ساتھ ساتھ  دیگر فلاحی کاموں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ قومی و بین الا قوامی  سطح پر  اپنی زبان اور  شناخت کو قائم رکھنے کے قابل ہو کر ،اپنے   آپ کو موجودہ دور کےساتھ مقابلہ کرنے کا اہل بنا سکے۔

(نوٹ: میری رائے سے متفق ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں تک میں نے محسوس کئےس، اس پر تبصرہ کر کے پیش  کرنے کی کوشش کی ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں