226

دھڑکنوں کی زبان ………

…………..محمد جاوید حیات …………

میں اکثر زندگی لکھتا رہا ہوں آج موت لکھ رہا ہوں ۔بے درد موت جو خوابوں کو چکنا چور،خوشیوں کو ملیامیٹ اور آرزوؤں کو تہس نہس کرتی ہے ۔۔موت جو ہر لذت کا خاتمہ کرتی ہے ۔ہنسیاں مٹا دیتی ہے ۔۔مسکراہٹوں کوآنسووں میں بدل دیتی ہے ۔۔ گھر کے درو دیوار افسردہ کر دیتی ہے ۔۔نامی گرامی ہستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیتی ہے ۔۔وہ موت جس کا آنا دنیا کی واحد حقیقت ہے ۔۔جس سے بچا نہیں جا سکتا ۔۔جس کو روکا نہیں جا سکتا ۔۔جس کے سامنے سفارش نہیں کی جا سکتی ۔۔یہ دوست کو دوست سے ،ماں کو بیٹی سے ،باپ کو بیٹے سے ، بہن کو بھائی سے اور شوہر کو بیوی سے الگ کر دیتی ہے ۔۔۔اے بہار باغ دنیا چند روز ۔۔۔دیکھ لے اس کا تماشہ چند روز۔۔۔
زار دول عزیز تحصیل تورکھو کے موضع اجنو میں آج سے ۷۶ سال پہلے محمد شاہ کے ہاں پیدا ہوئے ۔۔باپ کی تیسری اولاد تھے ۔۔کھاتا پیتا گھرانہ تھا ۔۔تعلیم مفقود تھی مگر اس کو سکول میں داخل کیا گیا ۔۔۱۹۵۸ء میں مڈل پاس کیا ۔۔بچپن کا زیادہ عرصہ ننھیال میں گذارا ۔۔جو تحصیل موڑکھو کا خوبصورت گاؤں کوشٹ ہے ۔۔مڈل پاس کرنے کے بعد نہ آگے پڑھا نہ نوکری کی گھر سنبالا۔۔اس زمانے میں ہر طرف قحط کا دور دورہ تھا ۔۔لوگ افلاس و افلاک کا شکار تھے مگر اس کے سخی ہاتھ ہمیشہ اوپر ہی رہے ۔۔لوگ اس کی موت تک اس کی سخاوت یاد کرتے رہتے تھے ۔۔یہ اپنے گاؤں میں ہنس مکھ اور بزلہ سنج مشہور تھے ۔۔سب اس سے محبت کرتے اور اس کی شگفتہ طبیعت کے دیوانے تھے ۔۔وہ سخت محنتی تھے ۔۔سلیقہ مند،دور اندیش ،موقع شناس،دریا دل اور انسان دوست تھے ۔۔اگر کوئی اس کے سامنے اپنی مجبوری بیان کرتا تو وہ بے چین ہو جاتے ۔۔اور اپنی آخری حد تک کوشش کرکے اس کی ضرورت پوری کرتے ۔۔وہ خود دار اور منفردتھے ۔۔وہ اپنی کسی مجبوری کا کبھی اظہار نہ کرتے ۔۔لوگ اپنی مجبوریاں پوری وثوق کے ساتھ اس کے سامنے لاتے ۔۔اور پورا ہوتے دیکھتے ۔۔۲۰۱۵ء کے تباہ کن سیلاب میں اس کا گھر بار اور مال مویشی تباہ ہو گئے مگر وہ ہنستے مسکراتے رہے ۔۔اور کہتے رہے کہ جان اور مال انسان کے پاس اللہ کی امانتیں ہیں جب مرضی ہو واپس لیتا ہے۔۔انھوں نے دو شادیاں کی مگر کوئی اولاد نہیں ہوئی۔۔ان کو بچوں سے بہت محبت تھی ۔۔اس کو علماء سے محبت تھی۔۔نماز کے دیوانگی کی حد تک پابند تھے ۔۔قرآن کی تلاوت بے لاناغہ کرتے ۔۔اسلامی کتابیں پڑھا کرتے ،تجسس ہوتی ۔۔مسائل پوچھا کرتے آخرت کی بہت فکر تھی ۔۔زار دول لال ’’لال‘‘نام سے مشہور تھا کیونکہ ’’لال‘‘ اس کا تکیہ کلام تھا ۔۔وہ چھوٹوں ،بڑھوں سب کو ’’لال‘‘ کہا کرتا۔۔لیکن وہ جب ایک انداز سے ’’لال‘‘ کہتا تو سننے والے ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ جاتے ۔۔وہ سب کو حوصلہ دیتے کوئی بڑی مہم بڑا کام درپیش ہوتا تو وہ ہمت بندھاتے حوصلہ دیتے ۔۔وہ سماجی کاموں میں بڑھ چڑ کر حصہ لیتے ۔۔اس کو دنیا کی بے ثباتی کا یقین تھا ۔۔اس لئے ایثار کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔۔جس سے مخلوق پیار کرے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ اپنے اس بندے سے پیار کرتا ہے ۔۔ہر عمر کے لوگ لال سے ملتے اور بے لا تکلف اس سے گفتگو کرتے اور ا س کی ظرافت کا لطف اٹھاتے ۔۔لال کی صحت قابل رشک تھی ۔۔البتہ ٹانگوں میں درد رہتا ۔ ان کو برا بلا کہہ کر لوگوں کو ہنساتے ۔۔وہ اپنی شخصیت کا بڑا خیال رکھتے لباس پوشاک کے معاملے میں بڑا صفائی پسند تھے ۔۔مسجد میں نماز کے لئے ایسے آتے گویا دلہا سسرال جا رہا ہو ۔۔اور کہتے اپنے رب کے حضور بن ٹھن کے جانا چاہیے ۔کیونکہ وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ۔۔وہ اپنا ماضی دھراتے اور لوگوں کو حساس دلاتے کہ وہ اللہ کا شکر کریں ۔۔لال کی حب الوطنی قابل رشک تھی ۔۔وہ بچوں کو جمع کرکے جھوم جھو م کے قومی ترانہ گاتے اور قومی نغمے بچوں کو سناتے۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ۔۔لال کی زندگی مختصر اور سیدھی سادی تھی ۔۔اس عارضی دنیا میں یہی قابل رشک زندگی ہوتی ہے ۔۔لال کو جب غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو لگ رہا تھا کہ وہ مسکرا رہا ہے ۔وہ میرا فرسٹ کزن تھا ۔۔اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ اہل ایمان مسکراتے اپنے رب کی طرف جاتے ہیں ۔۔
نشان مرد حق دیگر چہ گویم۔۔
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں