175

چترال کے مختلف ہسپتالوں میں بعض ادویات کی شدید قلت ، مریضوں کیلئے ادویات کی بازار سے خریداری کی راہ میں مشکلات

چترال ( محکم الدین )گذشتہ ایک سال سے پی ڈی ایم اے کے فنڈ سے فراہم کئے گئے ایک کروڑ بیالیس لاکھ روپے کی ادویات محکمانہ اختیارات کی کھنچاتانی کے سبب ہیلتھ کے سٹور میں پڑے خراب ہو رہے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف حالت یہ ہے ۔ کہ چترال کے مختلف ہسپتالوں میں بعض ادویات کی شدید قلت ہے ۔ اور عوام کو اپنے مریضوں کیلئے ادویات کی بازار سے خریداری کی راہ میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ذرائع کے مطابق سال 2015 کے سیلاب کے دوران چترال کو پی ڈی ایم اے کی طرف سے ادویات کی خریداری کیلئے ایک کروڑ بیالیس لاکھ روپے دیے گئے ۔ جن کے عوض ادویات خریدی گئیں ۔لیکن شہید ڈپٹی کمشنر چترال اُسامہ احمد وڑائچ نے اس بنیاد پر ادویات کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا ۔ کہ وہ ڈی ڈی ایم اے کے چیرمین کی حیثیت سے پرچیز کمیٹی کے چیرمین تھے ۔ جن سے مشاورت کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر ادویات کی خریداری کی گئی ہے ۔ جس میں ممکنہ طور پر بے قاعدگی کے امکانات ہیں ۔ اس حوالے سے ضلع کونسل چترال کے اجلاسوں میں بھی مختلف اوقات میں بحث کئے گئے ۔ اور ممبر ضلع کونسل چترال رحمت الہی کی زیر قیادت ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ جس نے موقع پر جا کر سٹور کئے گئے ادویات کے معیار اور مقدار کا معاینہ کیا ، اور اطمینان کا اظہار کیا ۔ جو کہ نہ صرف ملٹی نیشنل کمپنیز اور پاکستان کے معروف ادویات ساز کمپنیوں کی ادویات ہیں بلکہ ہر دوائی اپنی تعداد او مقدار کے مطابق بھی پورے ہیں ۔ اور ان ادویات کی خریداری کیلئے قانون اور ضابطے کے مطابق براہ راست متعلقہ کمپنیوں کو آدائیگی کرنے کیلئے چیک کا طریقہ استعمال کیا گیا ۔ جس سے کسی ذمہ دار فرد کی اس میں بے قاعدگی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہیلتھ کمیٹی کی قیادت کرنے والے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل چترال رحمت الہی نے اس بات کی تصدیق کی ہے ۔ کہ یہ اعلی معیاد کی ادویات ہیں ۔ لیکن اختیار کی جنگ اور محکمانہ چپقلش کی بنا پر خطیر رقم سے خریدی گئی ادویات عوام کی جان بچانے کیلئے استعمال ہونے کی بجائے سٹور کے اندر اور کھلے برآمدے میں پڑے دھوپ لگنے کی وجہ سے خراب ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ سابق ڈپٹی کمشنر اُسامہ احمد وڑائچ نے انتظامیہ کی طرف سے بھی ایک انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی ۔جس نے ادویات کی تعداد و معیار کا ریکارڈ اور فیزیکل چیک کرنے کے بعد اطمینان کا اظہار کیا تھا ۔ اور ادویات کا معیار بھی انہوں ڈرگ انسپکٹر دیر کے ذریعے کروایا ۔ جس نے بھی معیار کی تصدیق کردی تھی ۔ لیکن یہ بات باعث تعجب ہے ۔کہ معیار اور مقدار پر ٹیموں کی طرف سے اطمینان کے باوجود ادویات کی مختلف ہسپتالوں کیلئے تقسیم ہنوز مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ حالانکہ یہ ادویات اُن ادویات کے متبادل ہیں ۔ جو چترال کے ہیلتھ سٹور میں مختلف ہسپتالوں کے ادویات موجود تھے ۔ کہ اچانک ڈیزاسٹر آنے ہیلتھ سٹور میں موجود ادویات فوری طور پر متاثرہ ہسپتالوں میں تقسیم کی گئی تھیں ۔ اب مزید وقت ضائع کئے بغیر ان ادویات کو چترال بھر کے ہسپتالوں اور بی ایچ یوز کو تقسیم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ محکمانہ اختیارات کی جنگ کی وجہ سے چترال کے عوام کیلئے فراہم کئے گئے ایک کروڑ بیالیس لاکھ روپے مالیت کے یہ ادویات دھوپ میں پڑے خراب ہو رہے ہیں ۔ اب یہ تماشہ ختم ہو جانا چاہیے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں