209

بھارت کو منہ کی کھا نی پڑھ گئی سی پیک کی مخا لفت پر چین کا کرارہ جواب

نئی دہلی (نیوزڈیسک) چین نے کہا ہے کہ پاک ، چین اقتصادی راہداری علاقائی امن اور ترقی کا منصوبہ کا ہے۔ چین نے یہ بیان بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے سی پیک کو بھارت کی علاقائی خودمختاری کے خلاف قرار دینے کے بیان کے بعد جاری کیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے رائے سینا مذاکرات کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” علاقائی روابط بہتر بنانے کیلئے علاقائی خودمختاری کا احترام ضروری ہے۔“ان کا کہنا تھا کہ ” دو بڑی ہمسایہ طاقتوں (جیسا کہ بھارت اور چین) کے درمیان اختلافات ہونا غیر معمولی نہیں تھا۔ ہمارے تعلقات، خطے میں امن اور ترقی کیلئے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے بنیادی خدشات اور مفادات کیلئے حساسیت اور احترام ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔“ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا شن ینگ سے بھارتی وزیراعظم کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرنے کیلئے کہا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”جہاں تک سی پیک کی بات ہے تو یہ منصوبہ مختلف شعبوں میں دیرپا ترقی اور تعاون کیلئے وضع کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ علاقائی امن اور ترقی کیلئے ہے۔“ بھارتی خبر رساں ادارے ”انڈیا ٹوڈے“ نے ترجمان کے بیان کو کچھ یوں بیان کیا کہ ”یہ منصوبہ کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے اور اس سے کشمیر کے حوالے سے چین کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔“چینی وزارت خارجہ کا غیر مبہم بیان بھی بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کو اس موضوع پر رائے سینا مذاکرات کے دوسرے روز بھی بات کرنے سے نہیں روک سکا جنہوں نے دعویٰ کیا کہ سی پیک منصوبہ ان کی سرزمین سے گزر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ”سی پیک ایک ایسی علاقے سے گزر رہا ہے جسے ہم اپنے علاقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یقینا لوگ سمجھ جائیں گے کہ بھارت کا ردعمل کیا ہے۔ اس معاملے کی کچھ عکاسی ہونے کی ضرورت ہے لیکن مجھے معذرت کیساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں اس سے متعلق کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔“ پاکستان اور چین نے پاک، چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تعمیر تیز کر دی ہے جس کا ایک بڑا حصہ آزاد کشمیر سے گزرے گا۔ بھارت اس علاقے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان اس معاملے پر تنازعہ جاری ہے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل سے چین کو مشرق وسطیٰ سے ہر موسم میں تیل کی فراہمی ممکن ہو جائے گی۔ مختلف رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں گوادر پورٹ کی سیکیورٹی کیلئے پاکستانی اور چینی بحریہ کے درمیان تعاون کے باعث حالیہ ہفتوں میں بھارت کے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جے شنکر کا کہنا تھا کہ ایشیائی امور میں چین کا ایک ”متحرک“ عنصر کے طور پر ابھرنا اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ چین کے ساتھ اختلافات ختم نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ”چین کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات، بالخصوص کاروباری اور افرادی روابط کو وسعت دینے پر مختلف سیاسی مسائل اور اختلافات کے باعث اثر پڑا ہے۔ لیکن یہ دونوں ممالک کے لئے ضروری ہے کہ باہمی تعلقات کی سٹریٹجک نوعیت کو نظرانداز نہ کیا جائے یا اپنے عقائد کو جھٹلایا نہ جائے کہ دونوں کا عروج باہمی طور پر معاون ہو سکتا ہے۔“رپورٹس کے مطابق وزارت خارجہ کے سی پیک اور ”سیاسی مسائل“ سے متعلق بیان اہم تھا کیونکہ چین اور بھارت پچھلے کئی ماہ سے باہمی اختلافات سے نمٹے تھے۔ بھارت نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں چین کے موقف سے ناخوش ہے جہاں یہ گزشتہ سال ممبر شپ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ ایشیاءبھر میں چین کے علاقائی دعوے کو جولائی 2016ءمیں اس وقت جھٹکا لگا تھا جب اربٹریشن کی مستقل عدالت نے جنوبی چین کے سمندر کے مسئلے پر اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ جے شنکر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جنوبی چین کے سمندر کے معاملے پر بھارت کا موقف عالمی برادری کیساتھ ہے :-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں