260

عروج و زوال ۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میرے سامنے جو منظر تھا میں اِس کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا گردشِ شب و روز وقت کی رفتار کسی انسان کا اسطرح بھی تنزل کر سکتی ہے میرے دماغ میں حسنِ لا زوال پیکر حسن و جما ل کا تصور تھا یہاں معاملہ اِس کے بلکل بر عکس تھا میں نے خو شبوؤں سے معطر دلکش رنگوں سے لبریز سنگِ مرمر سے تراشے ہو ئے لافانی حسن کے جس شاہکار کو دیکھا تھا یہاں اُس کا ہلکا سا عکس بھی نہیں تھا زوال اور بیما ری کسی کے ساتھ ایسا بھیا نک سلوک کر سکتے ہیں یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ میں نے حسن و جما ل کے دلنشیں جس پیکر کو دیکھا تھا وہ تو زندگی خو بصورتی اور دل کش رنگوں سے بھر پور تھا ایسا بھر پور سرا پا ایسا لا زوال حسن جس کے لاکھوں مداح اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ترستے تھے وہ جب کبھی بھی ٹی وی یا سلور سکرین پر نظر آئی سکرین پر قوس قزح کے رنگ بکھر جا تے اُس کی روشن آنکھیں اور دلکش سراپا اور نقرئی شیریں مدھم سریلی آواز دیکھنے اور سننے والے پر سحر پھونک دیتی اُس کی آواز اور دل نشیں حسن کو دیکھتے ہی دیکھتے اُس کا اسیر ہو کر رہ جاتا مہبوت ہو کر اُس کے سحر میں گم ہو جا تا پھر وہی ملکہ ہوتی تھی پھر کن فیکون کے مقام پر وہی ہو تی تھی پھر دیکھنے والا اُس کے شاہکار احسن کا اِس طرح قیدی بنتا ہپنا ٹا ئز ہو تا کے اُس کے ابروئے چشم پر اپنا تن من دولت وارنے کو تیا ر ہو جا تا اپنا غرور خو دی ہر چیز اُس کے قدموں میں وارنے کو تیا ر ہو جا تا اُس کی تیز نظر کا جو بھی شاہکا ہوا وہ پھر اپنا نہ رہا وہ ساری عمر غلامی کے لیے تیار ہو جا تا اِس کے حسن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لو گ ہزاروں کلو میٹر کا سفر کر کے آتے اور گھنٹوں اِس کی راہ دیکھتے اور جو ایک بار دیکھ لیتا وہ اِس ایک جھلک کو ہی متا ع حیات سمجھ کر ساری زندگی اِس ایک جھلک یا لمحے کو خوب انجوائے کر تا نو جوان تو نوجوان بو ڑھوں کے دلوں کی بھی دھڑکن بن چکی تھی لوگ سانسوں کی مالا پر اِس ساحرہ کا نام جپتے اِس کی زندگی کا ریکا رڈ تھا کہ اِس نے جو لباس ایک بار پہن لیا دوبارہ اُسے کبھی نہ پہنا اِس کو ہمیشہ سے ہی عادت تھی کسی محفل کسی تقریب میں سب سے لیٹ جانا تا کہ لو گ اِس کا انتظار کر سکیں پر جس تقریب میں جا تی جس گلی سے گزر جا تی اِس کے حسن کے صد رنگ جلو ے چاروں طرف پھیل جا تے اِس کی آمد بہار کی آمد ہوتی اِس کا جانا خزاں کی مانند سمجھا جا تا تھا اِس کو حسن کی دیوی کے ساتھ ساتھ مقدر کی دیوی بھی سمجھا جا تا تھا جس پروگرام میں یہ شامل ہو تی وہ ہٹ ہو جا تا اُس پروگرام کی ایڈوانس میں ٹکٹیں بک جا تیں پہلے اِس حسن کی دیوی کی شہرت نے ایک شہر کو اپنی لپیٹ میں لیا پھر اِس کے حسن کی خو شبو نے پورے ملک کو معطر کیا اور پھر اِس کی شہرت سرحدوں کو عبور کر تی ہو ئی دور دراز کے ملکوں تک پہنچ گئی اِس کے پر ستار اب اندرون ملک کے ساتھ ساتھ اب بیرون ملک بھی بن چکے تھے اِ س کی چمکتی روشن مسکراتی آنکھوں کی گہرائی میں ہر کو ئی ڈوب جانا چا ہتا تھا اِس کی ایک ادا ئے بے نیازی دیوانے تڑپ تڑپ جا تے پر ستار اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پیش کر تے لیکن یہ مغرور حسینہ دیکھے بنا گزر جا تی ویسے تو خا لقِ کائنات نے کائنات کے چپے چپے کو اپنی عظیم الشان خلا قی کا گلشن بنا دیا اُس عظیم خا لق نے گلشنِ کا ئنات کو محسور کن لا زوال حسن سے سجا دیا کا ئنات میں حسن کے جلوے ترتیب تنو ع اور چپے چپے بلکہ ذرے ذرے کو ایسا دلکش رنگ منظر رعنا ئی رنگینی بخشی ہے کہ ذرہ ذرہ آپ کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے کلیاں شگو فے پتہ پتہ رنگین بوٹا بو ٹا حسین خو شبو کی انفرادیت الگ الگ اور مسحورکن خو شبو جدا جدا سینکڑوں ایسے منا ظر کے انسان پتھر کا مجسمہ ہو کر اُس کے سحر میں بت بن جا ئے آنکھ جھپکنا تک بھو ل جا ئے ہر منظر کی رعنائی اور دلکشی اِیسی کر نظر ہٹا نا مشکل ہو جا ئے نیلگوں آسمان کی وسعت بلند و با لا پہا ڑیوں کی ہیبت سمندر کی ٹھا ٹھیں ما رتیں مو جیں با دلوں کی آنکھ مچولی شیر اور چیتے کی دھاڑ دیو ہیکل ہا تھی کی چنگھا ڑ خو بصورت پرندوں کی سریلی آوازیں گلاب کی تا زگی نر می خو شبو نفاست مو تیے کی مہک اور چاند جیسی خو بصورتی ، کلی کی چٹک پھولوں پتوں گھا س پر پڑے شبنم کے قطرے اور اُن قطروں کی طہا رت قوس و قزح کا جا دوئی حسن سورج دیوتا کی تپش چاند کی ٹھنڈی چاندنی آسمان کی وسعتوں میں قندیلوں کی طرح روشن لا تعداد ستاروں کی قطا ریں کہکشاں کی قطار صبح کا اجالا اور عطرت کا اظہا ر شام کی اداسی اور تھکا وٹ با دِ صبا کا مسحو ر کن جھونکا طو فان کی جو لا نی سیلاب کی منہ زور سرگرادنی با دلوں کی گرج تیزبا رش مٹی پر با رش کی پہلی بو ندیں اور مٹی سے اٹھتی مہکتی خو شبودریا کا پا نی دریا کا پر اسرار شور اور دریا ئی مٹی کی اور پا نی کی خو شبو تیز با رش میں بجلی کا کوندا دیو ہیکل لمبے ہزاروں سالوں سے کھڑے پرانے پراسرار درخت جنگل کا سکوت فطرت کے نظا رے ہر طرف دیہات اور کھیتوں کا سکون شہروں کی ہنگا مہ خیز زندگی شہروں کے ہجوم سقراط کی فرزاندگی مجنوں کی دیوانگی ہیر کا حسن رانجھے کا عشق سلطان با ہو ؒ میاں محمد بخش ؒ بلھے شاہ ؒ ہیروارث شاہ ؒ شاہ حسین کا صوفیا نہ کلام کسی شاعر کا اچھوتا نا در شعر نادر تخیل نثر نگا ری کی جا دوگری دلکش خو بصورت دلنشیں مکھڑے دل کش چہروں کی تھکا وٹ بچوں کی معصومیت اور ان کے چہروں پر تبسم کا نور چشمِ غزالان امیر خسرو ؒ کا گداز شاعری سوز و ساز رومی عشق بے پنا ہ محبوب کی ادائیں سجن بے پروا بنا رس کی صبح اودھ کی شاپ یو رپ کا غرور عقل اشیا کا سرور عشقِ اہل حق کے چہروں پر پھیلا ملکو ئی حسن اور لہجوں میں شہد کی سی مٹھاس پاکباز ان خدا پرست کی قربت پہا ڑوں کا سلسلہ طو فانی آبشاروں کی روانی دل نشیں قا مت کی طو فانی لہریں گیسو کی شکن اور خو بو ئے بدن گداز جسم کیا بجلیاں ہیں جو قدرت نے کا ئنا ت کے چپے چپے میں بھر دی ہیں کا ئنات کا چپہ چپہ خا لق عظیم کی خلا قیت کا منہ بو لتا ثبو ت ہے کو ن کا فر ہے جو اِس لا زوال حسن کے جلوؤں میں کھو کر اِس کے خالق کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہو تا اِس عظیم کا ئنا ت میں سب سے بڑھ کر انسان کا وجود ہے انسان جو اگرچہ آسمان سے بلند اور صحرا ئے وسیع نہیں ہے اور نہ ہی سمندر سے گہرا اور پہا ڑوں سے اونچا ہے نہ ہی حیوانوں کی طرح سخت کشیں اور نہ ہی جنوں کی طرح پراسرار اور حیرت انگیز اور نہ ہی قدسی ملا ئکہ کی پا کیزگی اور معصومیت حاصل ہے لیکن خدا کا نائب ٹہرا کہیں جب یہ جوانی اور اقتدار کے نشے میں ڈوبا ہوتا ہے تو یہی سمجھتا ہے کہ دنیا اُسی کے دم سے چلتی ہے اور جب رگوں میں دوڑتا خو ن سرد پڑتا ہے اور بیماری بڑھا پا چہرے کی لا لی چھین کر ویرانی کے رنگ بھر تا ہے تو اپنی اوقات یا د آتی ہے اِس وقت میرے سامنے بھی اہنے وقت کی بہت بڑی اداکارہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی پڑی تھی شوگر اور دوسری بیما ریوں نے اِس کے جسم کو کھنڈر بنا دیا تھا ایک ٹانگ کا ٹ دی گئی تھی اب دوسری کی با ری تھی آنکھیں رخسار اندر دھنس چکے تھے چہرہ کالا سیا آنکھوں کی چمک اور چہرے کی لا لی کب کی منہ موڑ چکی تھی وہ بے نور بے رونق چہرے کے ساتھ میری طرف التجا آمیز تا ثرات سے دیکھ رہی تھی آج یہ بے بسی کی زندہ لاش بن چکی تھی میں لاہو ر مشہو ر نجی ہسپتال میں کسی دوست سے ملنے آیا تھا میں اِس کے کمرے کے سامنے سے گزر رہا تھا میرے جاننے والی عورت اندر سے نکلی اُس نے مجھے پہچان لیا اور کہا اپنے وقت کی مشہور و معروف اداکار ہ مو ت کی دہلیز پر پڑی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے آپ پلیز دعا یا دم کر دیں تو میں اندر آگیا اند بیڈ پر حسین جمیل عورت کی جگہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بیما ری نے سارا خون اور حسن نچوڑ لیا تھا اب یہ سسکتی بلکتی آخری سانسیں گنتی زندہ لا ش تھی جو کسی بھی وقت مٹی کا ڈھیر میں تبدیل ہو نے والی تھی میں سوچ رہا تھا کہ جب یہ جوان تھی اُس وقت یہ جس محفل یا ہسپتا ل میں جا تی تھی پرستاروں کا میلا لگ جا تا تھا اِس کی ایک جھلک کے لیے آج کسی کو پتہ بھی نہ تھا کہ وقت کی بہت بڑی حسین و جمیل عورت اس ہسپتال کے بیڈ پر کسمپرسی میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے کا ش انسان اقتدار طاقت حسن کے عروج پر اپنی آخرت کا سوچ لے تو کبھی بھی اِس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے بسی کی مو ت نہ مرے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں