220

ٹرانسپورٹر مافیاز کے ہاتھوں اہالیان چترال کا استحصال ۔۔۔۔۔کریم اللہ

ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ضلع چترال کو سرزمین بے آئین کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا گزشتہ کئی برسوں سے ضلع میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اورضلعی وتحصیل انتظامیہ کا کہیں نام ونشان موجودنہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اہالیان چترال کا ٹرانسپورٹر مافیاز کے ہاتھوں خوب درگت بنی ہوئی ہے ۔ ضلع وتحصیل انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وقتاََ فوقتاََ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نرخ نامے اور کرایہ ناموں کا اجرا کرتے اوران پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ایک فعال ضلعی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہوتی ہے ۔ البتہ ضلع چترال کی سطح پر ابھی تک اس قسم کی کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ۔یہی وجہ ہے کہ چترال کے باسی ٹرانسپورٹر مافیاز کے ہاتھوں رل گئے ہیں۔ ضلع چترال وہ واحد خطہ ہے جہاں تیل کی قیمتوں میں معمولی اضافے کے بعد کرایوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملتاہے البتہ تیل کی قیمتوں میں بڑے سے بڑی کمی کے ثمرات بھی عوام تک نہیں پہنچتے ۔آج بھی چترال کے اندر اور چترال سے پشاور ، اسلام آباد وغیرہ کے لئے گاڑیوں کا کرایہ سن 2012ء کے مطابق لیاجارہاہے جبکہ اس وقت ڈیزل کی قیمت ایک سودس روپے فی لیٹر کی سطح کو بھی عبور کرچکی تھی جبکہ اب اس میں نمایاں کمی کے بعد اسی روپے فی لیٹر سے بھی کم ہوچکی ہے ۔لیکن ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس کمی کے بعد کرایوں میں بھی حسب ضرورت کمی لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی اور نہ ہی ڈرائیور برادری کی ظلم وبربریت کو لگام دینے کی جسار ت کی گئی حالانکہ پرائز کنٹرول کی ساری ذمہ داری ضلع انتظامیہ کی ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ چترال کے منتخب بلدیاتی نمائندے بھی اس امر کویقینی بنانے میں بری طرح ناکام رہی کہ وہ پرائز کنٹرول اور کرایہ نامے جاری کرکے اس پر عمل درآمد کرواتے ۔ یہی وجہ ہے کہ چترال کی حدتک کہیں کوئی کرایہ نامہ موجود نہیں جس کی وجہ سے ڈرائیور طبقات اپنی مرضی کا کرایہ وصول کررہے ہیں ۔ کرایہ ناموں کی اس عدم موجودگی کا اثر تو براہ راست مہنگائی کی صورت میں عام آدمی پر پر پڑ رہاہے ۔ کیونکہ جو کرایہ فی من فی کلومیٹر کے حساب سے سن 2012ء میں ایک سودس روپے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت کے وقت حاصل کی جارہی تھی آج بھی وہی کرایہ وصول کیاجارہاہے ۔
اڈہ مالکان کی من مانیاں اور چترالی مسافروں کو درپیش مشکلات:
پشاور اور اسلام آبادسے چترال کے لئے سروس دینے والے اڈہ مالکان گلی گلی اڈہ کھول رکھے ہیں ۔ یہی حال چترال اڈے کا بھی ہے ۔ پشاور میں لاہور اڈہ میں چترالی گاڑیوں کو کھڑاکرنے کے لئے اسٹینڈ موجود ہے لیکن گاڑیاں اکثر اوقات حاجی کیمپ اڈہ اور قصہ خوانی سے روانہ کیاجاتا ہے ۔ اس میں بھی ایک طریقہ یہ دریافت کیاگیا ہے کہ چترال کے لئے گاڑیاں دن کی بجائے رات کو روانہ کی جاتی ہے اس سے ان اڈہ مالکان کو فیس اداکرنے وغیرہ سے نجات ملتی ہے ۔ رات کے سروس کے دوتباہ کن نقصانات ہمارے معاشرے پر مرتب ہوئے ہیں پہلا یہ کہ رات کے وقت گاڑی چلاتے چلاتے اچانک ڈرائیوروں پر نیند کا غلبہ ہوجاتاہے اور یوں گاڑی حادثے کا شکار ہوتے ہیں پشاور سے چترال آتے ہوئے اکثر حادثات ڈرائیوروں کے نیند کی وجہ سے رونما ہوئی ہے ، جس کے نتیجے میں ابھی تک سینکڑوں قیمتی جانین ناکردہ گناہوں کے جرم میں اپنے گھروں اور عزیز واقارب سے ملنے کی تمنا دل میں لئے ابدی نیند سوچکے ہیں ۔دوسرا یہ کہ پشاور سے چترال جانے والے اکثر گاڑیوں کو راستے میں لوٹا جاتاہے یوں کئی افراد عمر بھر کی کمائی سے ڈرائیوروں اور اڈہ مالکان کی وجہ سے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہواہے کہ اس قسم کی ڈکیتیوں میں اکثر اوقات ڈرائیوروں اور اڈھ مالکان خود بھی ملوث ہوتے ہیں جو ڈکیتوں سے رابطہ کرکے مسافروں کو لوٹتے ہیں اس قسم کی دسیوں وارداتین گزشتہ دوتین برسوں سے وقوع پزیر ہوچکی ہے لیکن ابھی تک اس حادثات پر کسی قسم کی تفتیش نہیں ہوئی ۔
لواری ٹنل اور ٹرانسپورٹروں کی ستم:
جب بھی موسم سرما میں برف باری کے بعد لواری ٹاپ ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند ہوتاہے تو لواری ٹنل کو عارضی طورپر ٹریفک کے لئے کھول دیا جاتاہے ۔اس مرتبہ بھی اہالیان چترال کی شدید مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے لواری ٹنل کو ہفتے میں د ودنوں یعنی منگل اور جمعہ کو مسافروں کی آمدورفت کے لئے کھول دیاگیا ہے ۔ شیڈول کے مطابق دوپہر ایک بجے چترال سے آنے والی گاڑیوں کے قافلے کو ٹنل میں سے روانہ کیاجاتاہے جب چترال سائڈ سے تمام گاڑیاں لواری ٹنل کراس کرکے دیر پہنچ جاتی ہیں تو دیر سائڈ سے گاڑیوں کو چترال کی جانب روانہ کیاجاتاہے اس دوران سہ پہر کے ساڑھے تین سے پانچ بج جاتے ہیں ۔ لیکن ستم یہ ہے کہ پشاور اور اسلام آباد سے گاڑیاں پہلے ہی جمعرات اور پیر کی شام چھ بجے روانہ کی جاتی ہے جو اگلے صبح ہونے سے قبل ہی لواری ٹنل میں پہنچ جاتی ہیں اور منفی دس ڈگری سینٹی گریڈ میں پورے دن مسافروں کو ٹنل کھلنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اس دوران اگر برف باری ہوجائے تو راستے میں ہی گاڑیوں کو روکنا پڑتا ہے ۔ مثلاََ 24جنوری 2016ء بروز منگل شیڈول کے مطابق لواری ٹنل کھل جانی تھی پشاور اور اسلام آباد سے 23جنوری کی شام ہی گاڑیاں روانہ کی گئی جب گاڑیوں کا یہ قافلہ دیر پہنچا تو مزید آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ سخت برف باری کے باعث گاڑیوں کا مزید آگے جانا ممکن نہ تھا لواری ٹنل کے احاطے میں تین فٹ برف پڑی تھی یوں جمعہ کے پورے دن چترال جانے والے مسافروں کو دیر میں رہنا پڑا اس دوران ہوٹلوں میں جگہ نہ ملی تو ضلع ناظم اور تحصیل ناظم دیر کی اپیل پر دیر کے عوام نے مسافروں کو اپنے گھروں میں ٹہرایا ۔ اس قبل بھی چترال سائڈ میں اس قسم کا واقعہ رونما ہواتھا جبکہ انتظامیہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام ہوا جو کہ تقریباََ اٹھارہ گھنٹے جاری رہی جس کی وجہ سے ایک بچے کی ہلاکت بھی ہوئی ۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پشاور اور اسلام آباد کے لئے گاڑیاں اڈے میں کھڑی کی جاتی ہے لیکن گاڑی ڈرائیور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق اپنی نمبر کی بجائے دھکم پیل اور دھونس سے مسافروں کو لے کر روانہ ہوجاتے ہیں اس دوران اکثر اڈھ مالکان غیب ہوجاتے ہیں یا خاموش تماشائی کا کردار اداکرتے ہیں۔پشاور سے چترال آنے والی فلائینگ کوچز کے چھتوں میں اتنا سامان لادکر روانہ کیاجاتا ہیں کہ اکثر اوقات بے تحاشہ سامان کی وجہ سے گاڑیاں حادثات کا شکا ر ہوجاتی ہیں۔
ان ساری مشکلات کے پیش نظر عوام ضلع ناظم چترال سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرکے ڈرائیور طبقے اور اڈھ مالکان کو قانون کا پابند بنانے میں کردار اداکریں صرف این ایچ اے کے خلاف احتجاج کرنے اور اس پر لعن طعن کرنے سے اہالیان چترال کے مسائل حل ہونے والے نہیں ۔ ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ صاحب کو چاہئے کہ وہ چترال کی سطح پر قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے میں بھرپورکردار اداکریں ڈرائیوروں اوراڈھ مالکان کو لگام دینے کی کوشش کریں اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضلع ناظم چترال کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پشاور کے مئیر سے ملاقات کرکے پشاور میں موجود غیر قانونی اڈوں کو ختم کرنے ، ایک ہی اڈے سے گاڑیاں روانہ کرنے اور رات کی بجائے دن کو چترال کے لئے گاڑیوں کی روانگی کے لئے لائحہ عمل اختیار کریں بصورت دیگر ان مافیاز کی جانب سے عوام کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور عوام صرف احتجاج کرنے کے اور کچھ نہ کر پائیں گے۔ ضلع ناظم کو چاہئے کہ وہ موجودہ قبر نما فلائنگ کوچز سے عوام کو خلاصی دلانے کے لئے مختلف ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو چترال میں سروس دینے کا بندوبست کریں تاکہ عوام چترال مزید تذلیل سے بچ سکے ۔
یہاں تک لکھا تھا خبر آئی کہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی جانب سے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد نیا نرخ نامہ جاری کیا ہے تفصیلات کے مطابق فلائینگ کوچز اور منی بسیں فی کلومیٹر 0.92روپے فی مسافر کے حساب سے کرایہ وصول کریں گی جبکہ اے سی بسیں1.12روپے، عام بسیں0.77روپے اور لگژری بسیں 0.87روپے فی کلومیٹر فی مسافر کرایہ وصول کریں گے۔ اس حساب سے پشاور سے چترال کے لئے فلائینگ کوچز /منی بسیں 460روپے ، اے سی بسیں 560،عام بسیں 385روپے اور لگژری بسوں کا کرایہ 435روپے فی مسافر مقرر کیاگیا ہے ۔ دینی مدارس اور دوسرے اداروں میں زیر تعلیم طالب علموں ، نابینا ، مغزور افراد او رساٹھ سال سے زائد عمر کے مسافروں کے لئے اصل کرایہ پر 50فیصد رعایت دی جائے گی۔صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے اپنا کام کیا کیا چترال کی ضلعی انتظامیہ اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کے لئے تیار ہے؟ فی الحال ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہاہے ۔کیونکہ چترال سے پشاور ابھی تک ایک ہزار روپے فی مسافر وصول کئے جاررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں