359

بچپن جوانی سے بوڑھاپے تک کا سفر ! ……………محمد صابر  

 یہ بات اس وقت کی ہے جب ہم اپنی عمر کے ابتدائی دنوں میں ہوا کرتے تھے اپنی دنیا میں مگن رہتے کسی بھی چیز کی خبر نہیں رکھتے کوئی بھی ذمہ دادی نہیں کوئی بھی خوف و پریشانی کا احساس تک نہیں ہوتا تھا یوں سمجھ لیجئے کہ ایک آزاد پرندے کی مانند آزاد فضاٶں میں جہاں جی چاہا اڑان بھردیا جسے ہم بچپنا کے نام سے جانتے ہیں ۔

ماں باپ کی شفقت و محبت اور لاڈ پیار  نے کسی بھی چیز کی کمی کا اساس ہونے نہیں دیا ماں باپ نے ہر اہک چیز مہیا کیا حصول تعلیم کےلیے ہمیں اسکول بھیجا تاکہ تعلیم کی روشنی سے فیضیاب ہوں معاش کی فکر نہیں گھر میں ہر وقت کھانا تیار ملتا ، گھر میں تمام سہولیات مہیا تھی ۔

 گھر کے بڑوں نے دینی لحاظ سے سب سے پہلے جو چیز سیکھائی وہ نماز  ادا کرنے کا طریقہ تھا چونکہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اولاد اچھے ہوں نیک ہوں اور دیندار بھی ،  مجھے آج بھی رمضان المبارک کا میرا پہلا روزہ اچھی طرح یاد ہے اس دن ایک عجیب سی کیفیت سرور مستی میرے دل پہ چھائی تھی عمر کے اُس حساب سے اگر ہم نماز نا بھی پڑھتے اور روزہ نا بھی رکھتے تو کوئی حرج نہ تھی مگر بچپن کا وہ شوق و جزبہ اور خلوص ہمیں ان چیزوں کی جانب رغبت دلاتی تھی ۔

آہستہ آہستہ ہم نے جوانی کی جانب قدم رکھا تو چند انمول چیزیں ہم سے جدا ہو گئیں ۔ وہ معصوميت کے پیچھے چھپی شرارت وہ سادگی اور دل کی خوبصورتی جن کی بدولت ہمارا بچپن نہایت خوبصورت اور دلکش ہوا کرتا تھا بعد از جوانی جن کے بدلے چند  ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوئیں وہ آزادی اب نہیں رہی نا ہی والدین کی جانب سے اور ہی مذہب کی جانب سے ( بلوغت سے پہلے مذہب ایک انسان کو حدود و قیود کا پابند تو نہیں کرتا البتہ بہتر ہے کہ بچپن ہی سے اسے ان چیزوں کی عادت ڈالی جاۓ )  بلکہ دونوں جانب سے حدود و قیود ہم پر لاگو ہوگئے ۔ جوان ہوتے ہی دنیا کی دلکشی اور چکاچوند میں کھو گئے دنیا پہلے سے بھی شریں نظر آنے لگی جو کہ اس سے قبل ایک کھلونا تھا آج وہ حقیقی اور اہمیت کا حامل لگنے لگا ۔ جوانی نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کردیا رگوں میں دوڑتا تیز خون جوانی کو لیکر غرور و تکبر پر اتر آیا ۔

جوانی کے نشے میں  مست ہوکر ماں باپ تک کو نہ بخشا گیا وہ جن کی بدولت ہم آج کاروان زندگی میں شامل ہے ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم ان کا سہارا بن جاتے ناکہ ان کےلیے مصیبت اور وبال جان  ، جوانی طاقت اور مستی نے ہمارے تیور بدل دئیے ۔ بچپن کی معصومیت سادگی شرارت اور وہ خوبصورت دل کیوں بدل گئیں کیا اس لیے کہ ہم واقعی میں جواں ہو گئے ؟

کافی دن بیت گئے تھے یاد ماضی کا مراقبہ کیے بغیر ایک دن اچانک دل میں ایک اضطرابی سی کیفیت جنم لیا ۔ جس نے مجبور کیا تو بڑی کوشش کے بعد  گوشہ نشیں ہوا کر ماضی کی جانب ایک نظر دوڑائی تو دل موم کی طرح پگھل سا گیا ۔ ایک منظر آنکھوں کے سامنے کھلا دیکھا تو دل دہل گیا ۔

بچپن سے لیکر جوانی تک کا سفر چند لمحوں کےلیے جب دماغ میں کسی فلم کی طرح تیز تیز چلنا شروع ہوا تو لاپرواہی نافرمانی اور لغزشوں کا ایک بازار گرم پایا ہر لمحے اور ہر گھڑی گناہوں نافرمانیوں کا لا متناہی سلسلہ دیکھنے کو ملا پھر کیا تھا دل چونک گیا دہل گیا ۔ غفلت اور گناہوں کی نحوست نے ہمیں اطاعت و فرمان برداری سے دور کرکے نافرمانی کی زندگی سے قریب سے قریب  تر کردیا ہے ۔

بچپن اور جوانی کے بعد اگلا مرحلہ بوڑھاپے کا ہے انسان ان مراحل سے گزر کر جب بوڑھا ہوجاتا ہے تو بدن میں طاقت ختم ہو جاتی ہے جوانی کی رگوں میں دوڑتا خون اب تیز نہیں دوڑتا ہاتھ بازو کامپتے ہیں زبان تھرتھراتی ہے  ۔ جو بیچ ہم نے بویا ہوتا ہے اب اسے کاٹنے کا وقت آتا ہے جس نے جو بویا وہی پاۓ گا جس نے نیکی کی اس کے ساتھ بھی نیکی کیا جاۓ گا اور جس نے بدی کی اس کے ساتھ بھی بدی ۔ بوڑھاپے کی اس کیفیت میں خود اللہ تعالی بھی انسان سے شرم فرماتے ہیں ۔ اور بچپن سے جوانی پھر بڑھاپے تک سفر آخری کار اپنی منزل موت سے ہمکنار ہونے کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے ۔

نہ جانے کتنے لوگ اس دنیا میں آئیں اور چلے بھی گئے ۔ بچپن پھر جوانی اور پھر پڑھاپا بھی دیکھا اور کتنے ہی جوانی ہی میں دنیا کو خیر باد کرکے موت کی دائمی نیند سو گئے ۔ ان سب میں وہی لوگ خوش نصیب تھے جنہوں نے گردش ایام سے فائدہ اٹھایا جوانی کو سرکشی و نافرمانی کی بجاۓ حصول رضا الہی میں صرف کیا ہو ۔ یہ دنیا کا دستور ہے جس نے بھی دنیا کی خوب خاطر داری کی ہے دنیا نے اسی کے ساتھ بے وفائی کی ہے اور جس جس نے دنیا کے مکر و فریب کو پہچانا وہی لوگ اس کے چال ڈھال سے محفوظ رہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں