Site icon Daily Chitral

وعدے،دعوے اورنعرے۔۔پروفیسررفعت مظہر

حکمران آمرہو ںیاجمہوری آمر،سبھی وعدوں اور دعووں سے ہی کام نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرسیاسی جماعتوں کے وعدوں اور دعووں کو مدِنظر رکھاجائے تواِس وقت تک پاکستان کوترقی میں امریکہ اوریورپ کے ہم پلہ ہوناچاہیے لیکن ایسا کچھ ہوانہ ہونے کی توقع کیونکہ ہم ترقی توضرورکر رہے ہیں لیکن ترقئ معکوس۔ ہم اپنے اپنے بتوں کی پوجامیں مگن یہ قوم نوازلیگ کو ’’میڈاِن پاکستان‘‘ اورپیپلزپارٹی کو ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ سمجھتی ہے ۔اب پجاریوں کی پوجامیں تحریکِ انصاف بھی شامل ہوگئی کہ اُس کے بغیر’’نئے پاکستان‘‘ کاتصوربھی ناممکن۔یہ تو طے ہے کہ قوم نے نوازلیگ کواپنی حالت سدھارنے کامینڈیٹ دیاتھا۔ عقلمندی کاتقاضہ تویہ کہ چادردیکھ کرپاؤں پھیلایاجائے لیکن سڑکوں ،شاہراہوں کے شوقین میاں برادران بجٹ کاغالب حصّہ صحت ،تعلیم اورمہنگائی کے عفریت پرقابو پانے کی بجائے اپنے شوق کی تکمیل پرصرف کررہے ہیں۔یہ میٹرو شیٹروتو بعدمیں بھی بن جاتی پہلے خادمِ اعلیٰ قوم سے کیاگیا لوڈشیڈنگ کاوعدہ توپوراکر لیتے ۔اُنہوں نے تو چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کادعویٰ کیا ، اب تو دوسال سے زائدعرصہ گزرچکا لیکن لوڈشیڈنگ کے خاتمے کادور دورتک کوئی امکان نظرنہیں آتا۔ خُداکرے کہ اب حکمرانوں کے اگلے دعوے اوروعدے کے مطابق 2017ء تک ہی لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جاسکے لیکن ہمیں بہرحال کوئی امیدنظر نہیںآتی۔ حکمرانوں کو یادرکھنا ہوگا کہ یہی لوڈشیڈنگ پیپلزپارٹی کی جڑوں میں بیٹھی اوروہ سکڑسمٹ کرسندھ تک محدودہو گئی۔ پیپلزپارٹی میں کھلی کرپشن کاعنصر اُس وقت داخل ہو جب آصف زرداری صاحب نے اِس میں قدم رکھا۔وہ بینظیرصاحبہ کے پہلے دَورِ حکومت میں’’مسٹرٹین پرسنٹ‘‘ اور دوسرے دَورمیں ترقی کرتے کرتے ’’مسٹرسنٹ پرسنٹ‘‘ بن گئے ۔بینظیرکی شہادت کے بعدتونہ صرف پیپلزپارٹی کے بلاشرکتِ غیرے مالک بن بیٹھے بلکہ چشمِ فلک نے یہ عجب نظارہ بھی دیکھاکہ جسے جیل کی کال کوٹھڑی میں ہونا چاہیے تھا، وہ ایوانِ صدرپر قابض ہوگیا۔ آجکل محترم پیپلزپارٹی کی قیادت نوجوان بلاول زرداری کوسونپ کرخود دبئی جابسے ہیں۔زرداری صاحب کادیگر سیاسی جماعتوں کو بہرحال ایک فائدہ توضرورہوا کہ جس جماعت کوضیاء الحق مرحوم اپنی شدیدترین خواہش کے باوجود ختم نہ کرسکے ،اُس کے خاتمے کی زرداری صاحب نے بنیادرکھ دی۔ وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ نوجوان بلاول زرداری پیپلزپارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کوبچانہ پائیں گے۔
محترم عمران خاں صاحب کی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پربہت سبکی ہوئی۔ جن کی خاں صاحب کے سامنے دَم مارنے کی مجال نہ تھی ،وہ بھی اِس ہزیمت پرچلا اٹھے۔ جہانگیرترین اورشیخ رشیداحمدپر سی ای سی میں کھل کرتنقیدہوئی اور جسٹس وجیہ الدین کے اِس فیصلے کی بازگشت بھی سنائی دی کہ ’’جہانگیرترین کی نہ صرف رکنیت ختم کی جاتی ہے بلکہ وہ کبھی بھی دوبارہ تحریکِ انصاف کے رکن نہیں بن سکیں گے‘‘۔ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ اِس ہزیمت پر خاں صاحب اپنامحاسبہ کرکے اپنی لغزشوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے لیکن وہاں تو ’’وہی ہے چال بے ڈھنگی ،جو پہلے تھی سو اب بھی ہی‘‘۔ طوہاََوکرہاََ تحقیقاتی کمیشن کافیصلہ قبول کیالیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ فیصلہ ادھوراہے اوروہ اِس سے مطمئن نہیں۔ اب محترم فرماتے ہیں’’جوڈیشل کمیشن کافیصلہ ہماری جیت ہے‘‘۔ اگرجیت اسی کانام ہے توپھر ’’ہار‘‘کسے کہتے ہیں؟۔ شایدخاں صاحب کے ارسطوانہ ذہن میںیہ خیال آیاہو کہ چونکہ اکابرینِ نوازلیگ تواترسے کہہ رہے ہیں کہ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کسی کی ہارہے نہ جیت ،اَس لیے یہ کہناضروری ٹھہراکہ یہ تودراصل ’’ہماری جیت ہے‘‘۔ اُنہوں نے ایک مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ عندیہ دے دیاکہ وہ تصادم کی راہ سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔اُنہوں نے فرمایا’’نوازشریف کی جگہ میں ہوتا اورپتہ چلتاکہ کوئی جنرل حکومت کے خلاف سازش کررہا ہے توکیا میں جنرل کوچھوڑ دیتا؟ میں انکوائری کرواتا ،حکومت انکوائری کیوں نہیں کروارہی؟ حکومت تحقیقات کروائے اورجو ملوث ہواسے پکڑے‘‘۔ خاں صاحب خوب جانتے ہیں کہ اُنہیں اِس دلدل میں دھکاکِس نے دیا جس سے نکلنے کی وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ وہ توتواترسے سونامیوں کو امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کی نویدسناتے رہے ۔ کیاوہ قوم کویہ بتاناپسند کریں گے کہ وہ ’’امپائر‘‘کون ہے؟۔ اب تویہ امرروزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکاکہ خاں صاحب سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمدشجاع پاشاکی انگلیوں پر ناچتے رہے۔ جنرل ظہیرالاسلام تواِس گیم میں اُس وقت شامل ہوئے جب جیوگروپ نے حامدمیر پرقاتلانہ حملے کاالزام براہِ راست جنرل ظہیرالاسلام پرلگایااور نوازلیگی بزرجمہر وزیرِاطلاعات پرویزرشید نے کہا’’ہم قلم والوں کے ساتھ ہیں، غلیل والوں کے ساتھ نہیں‘‘۔ اگرخاں صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اِ س قسم کے بیانات سے اُن کی ہزیمت کااثر زائل ہوجائے گاتو یہ اُن کی بھول ہے۔ ویسے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ اگرخاں صاحب نوازشریف کی جگہ ہوتے توانکوائری کرواناتو دورکی بات ،وہ ایساسوچنا بھی گناہ سمجھتے۔ خاں صاحب نے فرمایا’’حکومت نے ہمیں ڈی سیٹ کربھی دیاتوہم دوبارہ الیکشن لڑکے اسمبلیوں میں آئیں گے لیکن حکومت جلدی فیصلہ کرے‘‘۔ ایک توہمارے خاں صاحب کوجلدی ہی بہت ہوتی ہے لیکن اب اِس جلدی میں مولانا فضل الرحمٰن بھی شامل ہوگئے ہیں ،دونوں کی فطرت ایک اوردونوں ہی حصولِ اقتدارکے شوقین۔ مولاناصاحب کاخیال ہے کہ اگرتحریکِ انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی ڈی سیٹ ہوگئے توتحریکِ انصاف کی 28 میں سے 27 سیٹیں تو اُن کی پکی ۔وہ اسی دِل خوش کُن خیال کے مزے لوٹ رہے ہیں کہ اگراُنہیں 27 سیٹیں مِل گئیں توپھر پارلیمنٹ میں اُن کاپارلیمانی گروپ سب سے بڑااور مضبوط ہوجائے گا۔ اگرقائدِحزبِ اختلاف کامنصب نہ بھی ملاتوپھر بھی کم ازکم نوازلیگ کوبلیک میل کرنے میں تو آسانی رہے گی لیکن مولاناصاحب خیالِ خام کے اسیرہیں ۔اگرمولانا صاحب کی خواہش پوری کربھی دی جائے توپھر بھی اُن کے ہاتھ کچھ نہیںآنے والاکیونکہ ڈی سیٹ ہونے کی صورت میں ہمدردی کاتمامتر ووٹ تحریکِ انصاف کے کھاتے میں چلا جائے گااور وہ پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ ابھرکر سامنے آئے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نوازلیگ نے تحریکِ انصاف کے اراکین کوڈی سیٹ نہ کرنے کافیصلہ کرکے انتہائی متحسن فیصلہ کیاہے ۔اگراِس موقعے پراُنہیں ڈی سیٹ کردیا جائے تواُن کے حق میں ہمدردی کی ایک ایسی لہراُٹھے گی جواُن کے تنِ مردہ میں جان ڈال دے گی ۔خاں صاحب کی تویقیناَ یہ خواہش اورکوشش ہوگی کہ اُنہیں ڈی سیٹ کردیاجائے تاکہ وہ ایک دفعہ پھرسونامیوں کی ہمدردیاں سمیٹ سکیں اور تحقیقاتی کمیشن کی اڑتی دھول بھی بیٹھ جائے ،اسی لیے وہ ایک دفعہ پھر نوازلیگ کے خلاف ’’اَوکھے اَوکھے‘‘ بیان دے کراُسے بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہمیںیقین ہے کہ نوازلیگ ایساکوئی قدم ہرگزنہیں اٹھائے گی جس سے افراتفری بھی پیداہو اور نوازلیگ کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔ خاں صاحب نے یہ اعلان توکردیا کہ اب وہ اپنی تمامتر توجہ خیبرپختونخوا کوماڈل صوبہ بنانے پرصرف کریں گے اوراُن کی جماعت پارلیمنٹ میں اپنابھرپور پارلیمانی کردارادا کرے گی لیکن
تیرے وعدے پہ جئے ہم تویہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

Exit mobile version