273

افراد اور قوموں کی ترقی کا اندازہ ان کی تعلیمی حیثیت سے لگایا جا سکتا ہے……  عنایت اللہ اسیر

 پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ایک حد تک کام بھی مشکل حالات میں حوصلہ افزاء حد تک ہو رہا ہے۔ مگر پاکستان کا مقام دنیا کے ممالک میں تب ہی بلند ہو سکتا ہے جب ہمارے بنیادی تعلیمی مراکز پرائمری، مڈل ، ہائی اور ہائر سیکنڈری تک کے تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم حاصل کرنے کی تمام سہولیات، لازمی ضروریات اور بہترین جدید تعلیمی صلاحیتوں سے آراستہ تربیت یافتہ اساتذہ کرام مقرر ہوں۔مگر ہمارے اکثر سرکاری سکولوں میں بیٹھنے تک کو کوئی ٹاٹ موجود نہیں۔ باتھ روم کی سہولت اگر ہے بھی تو تالے لگے ہوئے ہیں کیونکہ پانی میسر نہیں۔ پہلے تو سائنس کا استاد ہی میسر نہیں اگر استاد موجود ہے تو لیبارٹری اور تجربے کا سامان موجود نہیں ۔ کچھ سامان اگر موجود ہے بھی تو اس کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ۔ اکثر سکولوں میں تدریسی معاونات تربیت یافتہ اساتذہ کرام بھی استعمال نہیں کرتے۔ جس بیگ یا بکس میں کسی NGOنے اسکول کو سامان فراہم کیا ہے وہ اسی حالت میں بند پڑے ہیں۔ہمارے پرائمری اسکولوں میں دو کمرے ، دو استاد 120بچے اور چھ  مضامین  کلاس روم میں دو بلیک بورڈ، 3، 3 کلاسز ان حالات میں بچے اگر خیریت سے واپس گھر آتے ہیں تو لاکھ لاکھ شکر، یہ حالات چشمِ دید گواہ کے طور پر لکھ رہا ہوں ۔ پشاور میں چراغ تلے اندھیرہ کے طور پر دلازاک روڈ کا ہائی سکول 180 بچے دو کلاسز اور ایک کلاس روم میں بچے ڈیسکوں پر بیٹھے بیٹھےحبس کی وجہ سے بے ہو ش ہو جاتے ہیں۔ اوریہ حال پشاور شہر کے تمام اسکولوں کا ہے آبادی 50گنا بڑھ گئی ہے اور پشاور کے سرکاری اسکولوں کی تعداد نہیں بڑھتی۔ جس صوبے کے دارلخلافہ کے اسکولوں کی حالت یہ ہو تو اس صوبے کی ہزارہ ، ڈیرہ اسماعیل خان، چترال، دیر اور شانگلہ کے اسکولوں کا کیا حال ہوگا۔ KPKکی PTIحکومت نے تعلیم کی بہتری کے لیے 8ارب روپے 2015-16کے لیے مختص کرکے PTC کو SRSPاور Adam Smithکی نگرانی میں 2ارب روپے ادا کر دیے اور KPKکے تمام اسکولوں کی PTCsکو بڑی خوش اسلوبی سے اسکولوں کی تعلیمی حالت کی بہتری کے لیے PTCsکے ذریعے کام کرنے کا اہل بنایا۔مگر 2017تک PTCsکو اس 8ارب روپے کا کتنا حصہ دیا گیا اس کا اندازہ بڑی آسانی سے KPKکی حکومت لگا سکتی ہے۔

مانسہرہ کے 2300اسکولوں کے لیے صرف 2کروڑ روپے کا اجراء کیاگیاہے مگر اس کا بھی کتنا حصہ PTCsکو دیا گیا یہ بھی معلوم نہیں۔ حالانکہ تربیت یافتہ PTCsنے SDPsجمع کرکے فنڈز کے انتظار میں اپنا سیشن پورا کرنے کے قریب ہیں۔ نئے آنے والے PTCsممبران اس فنڈ کو کس طرح استعما ل کریں گے یا پھر ان کی تربیت پر پھر 2 ارب لگانا ہوگا۔

GHSڈاڈر کی شاندار عمارت بغیر کھیل کے میدان کے کھڑی ہے اور اس کے قرب و جوار میں خالی سیلاب زدہ علاقہ اب اسکول کے لیے کم پیسوں پر خریدنا ممکن ہےمگر PTCsکو منظور شدہ 30لاکھ سے 40لاکھ روپے فی اسکول ان کے لازمی ضروریات کے لیے دینے کا حکم نامہ کسی گورنمنٹ اسکول کے لیے عمل میں نہیں لایا جا رہا۔ کئی ایک سرکاری اسکول کھیل کے میدان ، سائنس لیبارٹریز، فرنیچرز ، باتھ رومز اور پینے کے پانی سے محروم ہیں ۔ مگر محکمہ تعلیم رقم ہونے کے باوجود ان لازمی ضروریات کے لیے فنڈز ریلیز کرنے میں بخل کا مظاہرہ کرتی ہے۔

PTIکے KPKحکومت کی 2018سرخروئی ہی KPKکے تمام سرکاری اسکولوں کے PTCsکے لیے اسکولوں کی تعلیمی حالت کو بہتر کرنے کے لیے فنڈز کی فراہمی ہی سے ممکن ہے اور عوام الناس و طلباوطالبات کی بہتری بھی اس میں ہے۔

 الف اعلان کے اعلان اپنی جگہ لیکن جب تک حکومت ان اعلانات پر لبیک نہیں کرے گی تب تک تعلیمی نظام میں بہتری ممکن نہیں ہے۔ جب تک سرکار کی طرف سے تعلیم کی بہتری کے لیے PTCsکی مالی معاونت سے اسکولوں میں لازمی ضروریات، تعلیمی سہولیات اور جدید خطوط پر اساتذہ کرام کی تربیت نہیں کی جاتی اور حکومت تعلیم کا بجٹ 4فیصد تک نہیں بڑھاتی، معیاری تعلیم کا حصول اور دنیا کی قوموں کی صفوں میں پاکستان کو آگے کی صفوں میں لانا ممکن نہیں ہوگا۔  نہایت افسوس کی بات ہے کہ KPKاور بلوچستان میں بچوں کے تعلیمی معیار خاص طور پر ریاضی اور سائنس کو ماپنے کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جبکہ پنجاب میں PECپنجاب ایگزامینشن کمیشن اور سندھ میں SATسٹینڈرڈائیزڈ اچیومنٹ ٹسٹ  ہر سال اپنے صوبوں میں بچوں کے تعلیمی معیار سے متعلق امتحانات منعقد کرتی ہیں اور باقاعدہ رپورٹ شائع کرتی ہیں۔

ہمارے تعلیمی اداروں سے تب ہی محقق، مدبر، مفکر اور اعلٰی تعلیم یافتہ لیڈر ابھر کر سامنے آئیں گے جب ہمارے پرائمری اسکولوں سے لیکر ہائر سیکنڈری تک اعلٰی تعلیمی سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں