232

یونیورسٹی آف چترال اور چترال کا مستقبل۔۔۔۔ شیر جہان ساحلؔ

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک معیاری یونیورسٹی کسی بھی ملک اور کسی بھی قوم کی روشن مستقبل کا ضامن ہوتا ہے ۔ معاشرتی اداروں میں سب سے اہم رول تعلیمی اداروں کا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ تعلیمی ادارے ہی ہیں جو کسی قوم یا ملک کو تعلیم یافتہ، باصلاحیت، ہنرمند اور بہترین انسان فراہم کرتے ہیں اور جن کے کندھوں پر ملک و قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔ کیونکہ آج کی دور میں تعلیم کے بغیرکرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے معیاری تعلیمی اداروں کا ہونا بھی ضرورہے۔
پچھلے سال جب حکومت کی طرف سے یونیورسٹی آف چترال کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تو چترال کے نوجوانون اور علم دوست معاشرے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ایک خودمختار یونیورسٹی کا قیام چترال اور چترال کے باشندوں کا دیرینہ مطالبہ اور قانونی حق تھا جسے موجودہ حکومت نے پورا کیا۔چترال کے اندار خودمختار یونیورسٹی کا نہ ہونا ایک اہم مسئلہ تھا جس کیلئے طالب علم، علم دوست طبقہ اور چترال میں موجود پرنٹ میڈیا اپنے محدود وسائل کے باوجود اس مسئلے کو ہر مناسب موقعے پر بھر پور انداز میں اٹھانے کی کوشش کرتے رہے اور آخر کار ان کی یہ کوشش رنگ لے آئی اور یونیورسٹی کا باقاعدہ سرکاری اعلان ہو ہی گیا۔ پچھلے سال چھ اگست کو چترال اسٹوڈنٹ اینڈ سوشل ویلفیئرایسوسی ایشن (CSSWA) کی جانب سے ایک سیمیناربعنوان ’’یونیورسٹی آف چترال اور چترال کا مستقبل‘‘ ٹاون ہال چترال میں منعقد کیا گیا جسمیں ضلع بھر میں موجود پی ۔ایچ۔ڈی اسکالرز، پروفیسرز، لیکچرارز، ادیبوں، سیاسی نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ اس سیمینار میں درجہ بالا عنوان پر مختلف اسکالرز نے مقالہ پیش کئے اور حتمی رپورٹ تیار کیا گیا اور اسے متعلقہ اداروں کو بھجوا دیا گیا۔ سیمینار میں زیر بحث آئے ہوئے نکتوں میں سے ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ یونیورسٹی کے لئے ایک ایسے شخصیت کو پراجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا جائے جو اس فیلڈ میں مہارت رکھتا ہو اور کوشش یہ کی جائے کہ اسکا تعلق چترال سے ہو۔چونکہ ان دنوں یونیورسٹی آف چترال کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی تعیناتی کے لئے وزیر اعلی کو نام دیے جارہے ہیں اور چترال سے منتخب نمائندوں پر اب یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کس شخصیت کو بطور پراجیکٹ ڈائریکٹر تعیناتی کی سفارش کرتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں جب منتخب نمائندوں سے ہماری بات ہوئی تو ایم ۔پی۔اے چترال ون سلیم خان صاحب نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں ڈاکٹر جمیل کو بطور ڈائریکٹر تعیناتی کی سفارش کرتے ہیں اور ایک انتہائی معتبر زرائع سے یہ بات کنفرم ہوئی ہے کہ پی۔ٹی۔آئی کی ضلعی قیادت جناب عبداللطیف اور ایم۔پی۔اے فوزیہ بی بی کی طرف سے بھی ڈاکٹر جمیل کو بطور ڈائریکٹر تعیناتی کی شفارش کی گئی ہے۔ اور یہ چترال کی سیاسی قیادت خصوصاً عبدالطیف اور سلیم خان کا بڑاپن ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کے باوجود چترال کے اس اہم مسئلے پر میرٹ کو فالو کررہے ہیں کیونکہ ڈاکٹر جمیل کا سیاسی وابستگی اے۔این۔پی کے ساتھ ہے۔مگر اس وقت وہ واحد امیدوار ہے جو مطلوبہ معیار پر ہر طرح سے پورا اُترتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل احمد کا تعلق اپر چترال کے گاؤں اویر سے ہے اور موصوف نے سوشیالوجی میں پشاور یونیورسٹی سے پی ۔ایچ۔ڈی کر رکھا ہے ۔ اور مختلف نیشنل اور انٹرنیشنل این۔جی۔اوز کے ساتھ بطور ریسرچ کنسلٹینٹ پچھلے نو سالوں سے وابستہ ہیں۔ فیلڈ ورک اور پراجیکٹ لائن میں بطور کنسلٹنٹ اور ڈائریکٹر وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں موصوف سترہ مرتبہ بیرون ممالک کا دورہ کر چکے ہیں جن میں جاپان، سوئیڈن، ڈنمارک، قطر، انڈیا، ناروے، جرمنی، افغانستان، ایران، ملیشیا، تھائی لینڈ، یو ۔اے۔ای (دبئی) اور ترکی شامل ہیں۔ چھبیس سے زائد مختلف ریسرچ پبلیکشن موصوف کے چھپ چکے ہیں اور اگر انتطامی امور کی بات کی جائے تو موصوف دوہزار بارہ سے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا منتخب صدر ہے اوران سب سے اہم جب پشاور یونیورسٹی میں انسٹیٹوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ اسٹیڈیز (Institute of Peace and Conflict Studies)کو متعارف کیا گیا تو موصوف کو اس کے لئے پراجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تھا اور اب ڈھائی سال کی قلیل مدت میںیہ پراجیکٹ کامیاب ہوکر پشاور یونیورسٹی میں ایک ڈیپارٹمنٹ کی شکل اختیار کرنا ڈاکٹر جمیل کی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور موصوف اب اس ڈیپارٹمنٹ میں بطور چیرمین تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف کو علاقائی اور بین الاقوامی زبانون پر بھی عبور حاصل ہے جن میں اردو، پنجابی،ہندکو، پشتو،کھوار، انگریزی، فارسی، راشین اور سوئیڈش شامل ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف مختلف سماجی اور والنٹیری ایسوسی ایشنز کے ساتھ منسلک ہیں ۔ اور ان دنوں پشاور یونیورسٹی کے اندار ان کا شمار چوٹی کے اسکالرز میں ہوتا ہے۔ اوریہ چترال کی خوش قسمتی ہے کہ ایسے ناموار اور قابل فخرثپوتوں کو جنم دیا جن پر آج ناز کیا جارہا ہے ۔ چونکہ اب یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ وزیراعلی صاحب ڈاکٹر جمیل کی سیاسی وابستگی سے خوش نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس نام کو رجیکٹ کرے۔اوراگر ایسا ہو ا تو یہ چترال کی منتخب نمائندوں بالخصوص پی۔ٹی۔آئی کی ضلعی قیادت جناب عبداللطیف صاحب کے لئے ایک چیلنج سے کم نہ ہوگا کہ وہ میرٹ پر کیا ہوا اپنے اس فیصلے کو اپنے ہی پارٹی کے وزیراعلی سے کس حد تک منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر اس سلسلے میں ہر چترالی کو اپنے حد تک کردار ادا کرنا چائیے۔ کیونکہ ایک قابل اور اہل ڈائریکٹر ہی اس پراجیکٹ کو پائیہ تکمیل تک پہنچاسکتا ہے اور اس کے لئے ڈاکٹر جمیل احمد کے نام پر اب تک تمام چترالی نمائندوں کی جانب سے اتفاق ہو چکا ہے۔ اور اُمید ہے کہ وزیراعلی پرویز خٹک صاحب بھی چترال اور چترال کے مستقبل کے وسیع تر مفاد کو سیاست کی نظر نہیں کریں گے۔ اس سلسلے میں ہم چترال کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ، جو کہ ہر مشکل وقت میں چترالیوں کے لئے اُمید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے کے توسط سے تمام سیاسی لیڈران اور سول سوسائیٹی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو سیاست کی نظر ہونے سے بچالیں۔ ورنہ چترالیوں کا یہ دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہوتے رہ جائے گی۔
ہم اللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں کہ وہ وقت کے حاکیم کو حق کا فیصلہ کرنے کی توفیق عطافرمائیں۔ امین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں