279

خانے سب کے لئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : فخرالدین فخر

ہم بھی کسی سے کم ہے کیا لہٰذا ہمارے لئے بھی الگ خانہ ہونی چاہئے ۔ یہ آواز پیچھلے دنوں ہندوکش کے دامن میں بسنے والوں نے اُٹھائی ۔انکی بات موجودہ صورت حال میں درست بھی ہیں کہ جہاں اتنے خانوں میں ہم تقسیم ہیں وہاں ایک خانہ اور سہی۔بلکہ دو تین صفحے خالی خانوں کے لئے مختص ہو نی چاہئے ۔خانوں کی تقسیم کی روایت کو یکسر نظر انداز کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ اب ایسا کیا جاسکتاہے۔تو بنا ہی لینی چاہئے خانے۔ ایک بڑا سا صفحہ تو صرف یہاں کے باسیوں کے لئے ہی کم پڑنے کا حدشہ ہے ۔وطن عزیز میں مردم شماری جیسے معلومات جمع کرنی ہو تو بس بہت سے خالی خانے ہی ہونی چاہیے۔یہ بڑا صفحہ خانوں کا زبانوں کے لئے ۔یہ مذاہب کے لئے ۔یہ شلوار قمیص والوں کے لئے ،یہ پینٹ پتلون والوں کے لئے ،یہ نیم مذہبی پارٹیوں کا ۔یہ مذہبی اور یہ سکولر کے خانے بلکہ گھر کے ہر فرد کے لئے الگ الگ خانے مختص ہونی چاہئے تاکہ ہر کو ئی اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس میں سماسکیں۔بیداری کی یہ لہر اب چترال میں بھی اُٹھ رہی ہیں ۔مادری زبانوں کے عالمی دن کے حوالے سے ایک سیمنار میں بڑی شدو مد کے ساتھ یہ اواز اٹھائی گئی کہ ہماری زباں کو بھی کسی خانے میں فٹ کیا جائے ۔ اور خصوصاًتعلیم کے شعبے میں اس کے لئے الگ نصاب سازی کی جائے ۔بہت ہی خوشنما اور دل کو لگنے والی بات ہے ۔اور اس سلسلے میں کام ببھی ہو رہاہے ۔اپنی زباں و ثقافت ہی اپنی پہچان ہوتی ہیں ۔سمینار میں شرکت کا تجر بہ ایک لحاظ سے اچھا ہی رہا۔اپنی ثقافت اور اپنی زبان کے حوالے سے یوں مل بیھٹنا اور مسائل کا ادراک اور وسائل کے استعمال کی سمجھ بوجھ ،یہ سب ایک زندہ قوم کی خصوصیات میں شمار ہوتی ہیں ۔میئر کی کوششیں اس سللے میں قابل قدر ہیں ۔کم وسائل کے باوجود مگر خلوص دل سے وہ اپنی زبان اور ثقافت کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی خدمات انجام دے رہے ہیں کسی طور فراموش نہیں کی جاسکتی۔چترال میں منقدہ اس پرگرام میں کھوار کے علاو یہاں بولی جانے والی تقریباً تمام زبانوں کی نمائندگی اس میں موجود تھی۔اس میں یہ مطالبہ دہرایا گیا کہ ہماری زبان کو نصاب میں جگہ دی جائے ۔اور یہ بھی دیکھنے میں آ یا کہ بعض اہل دانش اس سلسلے میں نہایت جذباتی لگاو بھی رکھتے ہیں اور مقامی طور میں خواہ مخواہ غیر زبان کے استعمال کو سختی سے رد کرنے کے قائل ہیں۔جیسے مہمان خصوصی،،۔حلانکہ اپنی زبان میں بھی اسکے لئے الفاظ موجود ہیں ۔
زباں کی تعریف بعض ماہریں یہ کر تے ہیں کہ زبان احساسات اور خیالات کی پیدا کی ہوئی تمام عضوی اور جسمانی حرکتوں اور اشاروں کا نام ہے ۔اپنا مافی الضمیر کے بیان کا اعلٗی ذریعہ ہے ۔ جہاں تک کھوار کا تعلق ہے یہ زبان اپنی سہل ادائیگی اور اپنے الفاظ کی شرینی کی وجہ سے اپنی ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے چترالی باشندوں کی دیگر شہروں میں موجودگی کی وجہ سے یہ زباں ملک کے اور شہروں میں اپنی موجودگی کا اعلاں کرتی نظر آتی ہے۔حتٰی کہ ایک ماہر کے مطابق یہ ہندوستان میں بھی اس کی موجودگی دیکھنے میں آئی ہے ۔
کھوار پر عربی اور فاری کا گہرا اثر ہے ۔ کئی الفاظ ایسے ہیں جو مشترکہ ہیں۔ دنیا کی ہر زباں کسی نہ کسی طرح دوسری زباں سے الفاظ مستعار لیتی ہیں اور اپنی زباں میں مدعم بھی کر لیتی ہیں اس زباں کی ترقی بھی اسی سے ہی ممکن ہے ۔محض اپنی ہٹ دھرمی یا بے جا احساس کمتری میں مبتلا خواہ مخواہ “اپنی زباں “کی رٹ لگائے بیٹھے تواس سے زبان کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کھوار کی اپنی اانفرادیت ہے اور ایک منفرد ثقافت کا حامل بھی ہے ۔ظاہر ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں بسنے والوں کی تہذیب و ثقافت بھی اسی رنگ میں ہی رنگی ہوتی ہیں ۔کھوارزباں بھی اسی تہذیب اور ثقافت کے دائرے میں پروان چڑھی اور قائم و دائم ہے۔
اہل دانش کے حدشات اور تحفظات اپنی جگہ درست بھی ہیں کہ ہماری زباں و ثقافت کو نقصا ن پہنچ رہاہے۔ اور یہ کوشش جان بوجھ کے ہو رہی ہیں ۔ میں بصد احترام یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ اسکو اپنی انا کا مسئلہ بنانا اپنی زباں ثقافت کی کوئی خدمت نہیں ہے۔”سورچی مینو”کو مہمان خصوصی کہنے میں کیا حرج ہے۔آخر کو کتنے الفاظ ایسے ہیں جو کھوار میں داخل ہیں خصوصاًاردو کے اور اسی تواسط سے عربی اور فارسی حتیٰ انگریزی کے الفاظ بھی اس میں داخل ہیں بقول ڈاکٹر بادشاہ منیر اردو اور کھوار خون کے رشتے میں منسلک ہیں ۔صرفی اعتبار سے بہت کم اختلاف ہیں اور نحوی اعتبار سے کاملاً مطابقت پائی جاتی ہے۔اسی مطابقت کی بناء پر اگر کچھ الفاظ زبان زد عام ہو جائے اور اس سے قبولیت بھی حاصل ہو تو کونسی قیامت آجائیگی۔ رہی بات نصاب سازی کی تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ تقسیم بحیثیت مسلم قوم ہماری سرشت میں داخل کب کا ہو چکاہے ۔تو چلو ایک اور سہی ۔ حلانکہ دنیا کے دیگر اقوام میں اسکی مثال ملنی مشکل ہے۔یہہودی یا بدھ مت کے پیرہ کار یا ہندو یا دیگر سبھی اپنی زباں اورثقافت کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں اور اسی میں ہی انکی ترقی کا راز بھی ہے۔ اور ایک ہم ہیں کہ تقسیم پر تقسیم ہی ہو رہے ہیں کو ئی پختوں ہیں تو کوئی کھو،کوئی سرائیکی ہے تو کوئی پنجابی کو ئی سندھی اور فخر بھی اسی تقسیم پر کررہے ہیں حتیٰ کہ ہم نے مذہب کو بھی نہیں بخشا ۔اب تو ذریعہ تعلیم بھی اسی تقسیمی طریقہ کار کے مطابق مقامی زبانوں میں دینے کا مطالبہ کیا جارہاہے اہل اخلاص نصاب سازی کے مرحلے میں زیادہ ثواب کمانے کی عرض سے پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ایک اور تقسیم کی طرف گامزن ہیں پتہ نہیں نادانستگی میں ایسا ہو رہا ہے یا جان بوجھ کے۔ ٹھیک ہے زباں کسی علاقے اور اس کے مکینوں کی پہچاں کا ذریعہ ہو تاہے۔ محض چترال میں ہی تقریبا 16 زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ تقسیم کر نی ہی ہیں تو پہلی جماعت سے ہی ان زبانو ں میں تعلیم دی جائے ۔اور مکمل طور پر ذہنی پراگندگی کا سامان کیا جائے ۔ صد افسوس ایسے اہل دانش پر جو اس قسم کی تقسیم کی تبلیع کر رہے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو تا ایک مسلمان اور ایک پاکستانی ہو نے کی حیثیت سے اپنی قومی زباں اردو کو ہی مکمل طور پر ذریعہ تعلیم بنا لیا جاتا۔ تاکہ پنجابی سندھی بلوچی پشتو ہا کھوار میں نصاب سازی کی ضرورت ہی نہ رہے اور سب ایک ہی بولی بولنے لگے ۔ اور خود ساختہ تقسیم جو اسلامی شان کے بھی خلاف ہیں کی نفی کی جاسکیں۔خدارا ہم اور تقسیم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ہمارے حال پہ رحم کرو اور :اپنی زباں اور ثقافت کی جو رٹ تم نے لگا رکھی ہے اس سے رجوع کرو ۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ ہماری زباں اور ثقافت اگر ہیں تو اللہ کی دی ہو اس عظیم نعمت اسلامی پاکستان کی نسبت سے ہیں ۔ باقی مقامی طور پر لوگ جو بھی اپنی زباں یا ثقافت کہتے ہیں وہ اپس کی بات چیت یا معاملات بقول انکے اپنی زباں و ثقافت کے مطابق ہی کر سکتے ہیں اس انکی “اپنی”انا کی بھی تسکین ہو گی۔ مگر ذریعہ تعلیم میں مقامی زبانوں کو شامل کرنا کسی صورت اچھا اقدام نہیں ہے۔آئین میں ایسی کو ئی بات ہے بھی تو حذف کی جائے۔اور اردو کو ہی عملاًمکمل طور پر ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔دوسرے اقوام کی مثال سامنے ہیں کہ وہ اپنی ذباں کو ہی ذریعہ تعلیم بناکے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ایک ہم کہ مسلسل تقسیم کے عمل سے گذررہے ہیں لہذا گذارش ہے کہ اہل دانش اپنی مقامی زباں میں نصاب سازی پر زور دینے کی بجائے قومی زباں میں ذریعہ تعلیم پر توجہ مرکوز کریں اسی میں ہماری بھلائی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں