250

فدانگینہ چترال۔۔۔تحریر: فراز خان فراز چرون

یہ اس زمانے کی بات ہے کہ نو زائیدہ ملک پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد بلجیم سے تعلق رکھنے والاسیاح دنیا کے سفر کی غرض سے پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے شمال میں واقع شاہی ریاست چھترار کا دورہ کرتے ہوئے اس وقت کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے سفرنامے میں یوں لکھتا ہے کہ یہاں کے باسی بنیادی ضرورتوں سے ہزار سال پیچھے ہیں اور یہاں کے باسی اپنے معاشی، معاشرتی اور ذہنی ارتقا ء کے لئے کسی مسیحا یا معجزہ کے منتظر ہیں ۔ واپسی کے چند عشرے بعد ان کی بیٹی ڈاکٹر بن کر خدمت کی غرض سے دنیا کے سفر پہ نکلی تو بچپن میں بابا کی سنائی ہوئی کہانی اب بھی کانوں میں گو نج رہی تھی اور یہی کہانی اس کو آمد چترال کی سبب بنی ۔ دل میں بچپن کی وہی کہانی ابھی بھی تروتازہ تھی لیکن آنکھوں سے وہ منظر اوجھل تھی ۔غم اور خوشی کے عالم میں اپنے بابا کو رقعہ بھیج دی اور یہا ں کے حالات کی یکسر منظر کشی کی۔ جب بیٹی کی چھٹی ملی تو بابا کو یقین نہیں آیا گو کہ اس کی عمر اسی (80)سال کے لگ بھگ تھی اور وہ زندگی کی آخری سفر یعنی دورہ چترال پر روانہ ہوا ۔اس طرح 1980کے دہائی میں چترال کا دورہ کرتے ہوئے اس ناقابل یقین تبد یلی اور معجزاتی ترقی کو اپنی آنکھوں سے یدیکھتے ہوئے خود کو یقین نہیں آیا۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہذہنی ارتقاء کے لئے انسان کی بنیادی ضرورت یعنی خوراک،کپڑا اور مکان کا ہو نا ضروری ہے اس کے بغیر ذہنی ترقی (علم) کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ان مساعد حالات میں بھی چترال کے کچھ عظیم سپوت نے اپنے نام ملکی اہم عہدوں پہ آویزاں کروا دیا ۔ گو کہ اس دور میں پورے وادی چترال سے علم دوست چشم چراغ پیدا ہوئے لیکن کچھ مٹی زیادہ زرخیز ثابت ہوئی۔ ان میں موغ ، برنس ، چرون ، بونی اور رائین سر فہرست ہیں۔ان فخر چترال میں سے ہر ایک کی کہانی آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہترین نمونہ ہے تاہم ہر ایک کا احاطہ کرنا ممکن نہیں اس لئے ان میں سے ایک کی زند گی کی نشیب و فراز پر قلم کو حرکت دینے کی ناتمام کوشش کی ہے۔ کہتے ہیں کہ ذہین لوگ بچپن ہی سے باکمال ہوتے ہیں وہی شخص جو بچپن میں ردی کے ٹکڑوں سے معلومات اٹھا کر اپنے علم میں اضافہ کرتے ، پڑوسیوں کے کام آتے اور ماں کو اپنی بساط کے مطابق خوش رکھنے کی کوشش کر تے کیونکہ ان کی پیدائش کے چار سال بعد ہی اس کی امی کو اپنی ہم سفر سے جدائی کی صعو بتیں جھیلنا پڑی۔ وہی باکمال ماں اپنی مجبوریاں بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مکمل توجہ اس بچے پہ ڈال دی تاکہ وہ ایک پرجوش مستقبل جی لے۔ یہی نہیں بلکہ اسی نے اپنی رات کی ساری چراغ جلا دی تاکہ وہ بچے کا پرتپاک مستقبل دیکھ سکے۔
وہی ہونہار بچہ اپنی زندگی کی ابتدا ئی دن بڑے نام کے ساتھ شروع کیا،کبھی بھی شکایات کا موقع نہیں دیا اور اسکول میں بھی سامنے والی کرسی میں بیٹھنے والوں میں اس کا شمار تھا ۔ پانچویں جماعت تک اپنے آبائی گاؤں چرون سے تعلیم حاصل کرنے کے بعدمڈل سکول میں داخلہ کے لئے گاؤں سے ۹کلو میٹر دور ایک دوسرے گاؤں بونی جانا پڑا اور یوں آٹھویں جماعت تک پڑھنے کے لئے اس معصوم کو روزانہ اٹھارہ کلومیٹر کا مسافت طے کرنا پڑتا تھا ۔ ان تمام صعو بتوں کے باوجود اس نے خوش اسلوبی سے اپنے تین سال کا دورانیہ بہترین کارکردگی کے ساتھ مکمل کر لیا۔ اس زمانے میں میٹرک تک تعلیم کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس بنا پر مزید پڑھنے کی خاطر گورنمنٹ ہائی سکول کوشٹ کا رخ کرنا پڑا جوکہ ان کے آبائی گاؤں سے تقریبا سات کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔اپنی کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے میٹرک کے امتحان میں بھی اول پوزشن میں اپنے نام کر دی۔
کسی کو کیا معلوم کہ حالات کب پلٹتے ہیں اور خوشی کے لمحات امتحان کے دن بن جاتے ہیں۔ اس ہونہار طالب علم نے ایف۔ ایس۔ سی پری میڈیکل کا انتخاب کرکے سائنس کے میدان میں کود پڑے اور گورنمنٹ انٹر کا لج بونی میں داخلہ لیا۔اس زمانے میں سائنس چترال کے باسیوں کے لئے بالکل نیا تھا اور پڑھانے والوں کا بھی قحط الر جال تھا۔ یہ سبھی عوامل مل کرفدا کو زندگی کا پہلا کڑوادن دیکھنے پر مجبور کر دیا اور ایک سال تک سائنس میں کیا ہوا محنت رائیگاں گیا اورسائنس کی دنیا کو خیرآباد کہہ دیا۔اوراس کے آنے والے سال انہوں نے ایف۔ اے کا امتحان پرا یؤٹ امیدوار کی حیثیت سے دے دیا اور اس طرح ایف۔اے کا امتحا ن فرسٹ ڈویژن پاس کر لیا۔اسکے بعد گریجوشن بھی پہلی پوزیش گورنمنٹ ڈگری کالج چترال سے کیا۔ ساتھ ساتھ ایم۔ اے کی فرسٹ ڈویژن کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے اپنے نام کر د ی ۔ یونیورسٹی سے فارغ ہوکر سی۔ایس۔ایس کے لیے تیاری شروع کی ،دوران مطالعہ چند ماہ اسلامیہ ماڈل سکول بمباغ میں درس وتدریس سے بھی وابستہ رہے۔اپنی صلاحیتوں کا برملا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی دفعہ سی۔ایس۔ایس کوالیفائی کیا اور سیٹ کم ہونے کی وجہ سے دوبارہ ایگزام دے دیا،کامیابی حاصل کرنے کے بعد” کامرس اینڈٹریڈگروپ ایکسپورٹ پروموشن بیوروکے اسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔اس نے سوچا ہوگاکہ اس سے آگے جہاں اور بھی ہے کیونکہ نیت کے کھرے اور محنتی لوگ تقدیر کو خود دعوت دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں حکم خداوندی ہے، آیت مبارکہ کا ترجمہ یوں ہے ” اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے” اور اقبال نے بھی کیا خوب کہا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
آپ نے تیسری مرتبہ سی۔ایس۔ایس کا ایگزام دے کر صوبہ میں دوسرے نمبرپر اور پاکستان میں گیارہ نمبر پر آئے اور اے۔ایس۔پی کا اہم عہدے اپنے نام کر دیا ا ور بعد میں ایس۔پی کے عہدے پر فائز ہو گئے اور اس دوران ایک سال کیلئے ملک سے باہر خدمت انجام دینے کا موقع ملااور وہاں سے واپس آکرڈی۔پی۔او لوئر دیر مقرر ہوئے۔ پھر پویس سکرٹریٹ میں تعیناتی ہوئی اور اس دوران سکالرشپ پر اپنے متعلقہ فیلڈ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے یو۔ایس یونیورسٹی چلے گئیاور واپس آتے ہی اے۔آئی۔ جی مقرر ہوئے اور این۔ٹی۔ ایس۔سسٹم کو فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس وجہ سے مزید ترقی آپ کے حصے میں آئی۔اس وقت بحیثیت ڈی۔ آئی۔جی۔ صوبہ خیبر پختونخوا خدمت انجام دے رہے ہیں۔میں جس عظیم اور با صلاحیت شخص کے بارے میں حقیقت کی عکاسی کی ہے ۔یہ ہے وہ ماں کی امیدوں کا تارااور ایک علم دوست نوجوان نگینہ چترال’’ فداحسن‘‘ جن کا تعلق چرون سے ہے اور اپنی زندگی کے صرف چھیتالیس سال میں اتنے نشیب و فراز سے دوچار ہو کر بڑا نام کمالیا اور چترالی نوجوانوں کے لئے آپ کی علمی کاوش ایک بہترین مشعل راہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں