307

بھٹو کا طلسم….کریم اللہ

بھٹو کو قتل ہوئے اٹھاتیس برس بیت چکے ہیں۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ بھٹو صاحب کا طلسم ابھی تک کسی نے نہیں توڑ سکے۔ ان اٹھاتیس برسوں کے دوران پاکستانی سیاست “بھٹو کی حمایت” اور”بھٹو دشمنی” کے گرد گھومتی رہی۔ معروضی حالات اس بات کا غماز ہے کہ بھٹو کو طلسم اب بھی موجود ہے تبی تو چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف چترال کے ایک سنئیر راہنما نے صبح اٹھتے ہیں اپنے فالور کو سلام کہنے کے بعد ایک پوسٹ آپ لوڈ کیا جس کا مفہوم یوں تھا کہ” سندھ کے عوام بھوک، افلاس، تنگدستی اور جہالت کے ہاتھوں مررہے ہیں اب بھٹو کو بھی مرنا ہوگا”۔ یہ ایک اشتعال انگیز اور تعصب سے بھرپور طنز اور تحقیرانہ انداز بیان تھا۔ جس کے جواب میں ان کے فالوروں نے سوشل میڈیا پر مسلسل استفسار کرتے رہے کہ کیا بھٹو واقعی زندہ ہے ایک صاحب نے فیس بک پر بھٹو صاحب کے نماز جنازہ کی تصویر آپ لوڈ کرتے ہوئے جیالوں کو یاددہانی کرائی کہ بھئی جو لوگ بھٹو زندہ ہے کا نغرہ بلند کررہے ہیں وہ درحقیقت پاگل ہے بھٹو کو مرے صدیاں بیت گئی یہ رہا اس کی نماز جنازہ کی تصویر۔ اب بھی یقین نہیں۔

ہمارا بنیادی سوال یہ ہے کہ جیالے کو نکلے پاگل جو چار عشرہ گزرنے کے بعد بھی ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے” کا نغرہ لگا۔ لیکن جو لوگ اٹھتے بیٹھتے تبدیلی کا نغرہ لگاتے نہیں تھکتے ان کے لاشعور میں بھی یہ بات عیان ہے کہ بھٹو کا طلسم اب بھی موجود ہے تبی تو پی ٹی آئی چترال کے سنئیر راہنما نے صبح نماز پڑھنے سے قبل فیس بک اسٹیٹس اپ لوڈ کردیا” اب بھٹو کو مرنا ہوگا” پھر ان کے پیروکار مسلسل سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا بھٹو اب بھی زندہ ہے۔۔ یہ سوال تو ہم پی ٹی آئی والوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کے خیال میں بھٹو زندہ ہے اگر زندہ نہیں تو پھر ہر صبح فیس بک میں یہ پوسٹ آپ لوڈ کرنے کی ضرورت کیا کہ “سندھ کے عوام مر رہے ہیں اب بھٹٔو کربھی مرنا ہوگا”۔

ہمارے معاشرے میں سوال تیتر  جواب بٹیر جیسا انداز اپنانے کا رواج کو دانشوری کا معراج تصور کیا جاتاہے تبھی تو پی ٹی آئی کے دوست فرمارہے ہیں کہ بھٹو تو عظیم راہنما تھے لیکن زرداری کی حمایت کیوں کررہے ہیں۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ بھئی اس بحث کے درمیان میں یہ زرداری کہاں سے آئے؟ اخلاقیات نام کی بھی کوئی چیز موجود ہے اگر کسی شخص کا کوئی رشتہ دار دوست یا پسندیدہ شخص وفات پاجائے تو کیا روزانہ اس شخص کو یہ باور کرانا مناسب ہے کہ آپ کا فلان رشتہ دار، دوست یا پسندیدہ شخص مرگیا ہے؟ کیا اپنی بے راہ روی میں عمومی اخلاقیات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

یہ تو انتہا پسند جیالا بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کو مفاہمتی پالیسیوں کے ذریعے جتنا نقصان پہنچایا اتنا نقصان تو فرغون ثانی جرنیل ضیالحق بھی نہیں پہنچایا تھا۔ لیکن چترال کی حد تک پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک مضبوط ووٹ بینک اب بھی موجود ہے وجہ بھٹٔو یا زرداری کی غلامی ہر گز  نہیں البتہ بھٹو صاحب کے وہ خدمات ہے جن کو بھولنا کسی  کے بس میں نہیں۔ اگر پی ٹی آئی چترال سے بھٹو کے طلسم کا خاتمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو عمران خان کو بھٹو بننا ہوگا جس نے بروغیل میں قحط پڑنے پر سی ون تھرٹی کے ذریعے خوراک اور مویشیوں کے لئے چارہ بروغیل پہنچایا لواری ٹنل پر کام کا آغاز کیا۔ بھٹو پہلا اور ابھی تک کا اخری راہنما ہے جس نے مستوج جیسے دور افتادہ علاقے میں تشریف لے گئے مستوج میں سجی اسٹیج میں تمام تر پروٹوکول توڑ کر عوام کے درمیان گئے اورعشر جیسے ظالمان ٹیکس کا خاتمہ کرنے کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ میں آپ کو نہیں بھول سکتا البتہ آپ مجھے بھول جائیں گے۔ چترال میں کم وبیش سارے ترقیاتی کام بھٹو دور کا کارنامہ ہے۔ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں سات مرتبہ اس دور افتادہ اور پسماندہ ضلع چترال کا دورہ کیا تبھی تو چترال کے لوگ بھٹٔوکے نام پر جان نچھاور کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ چرون سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب (نام بھول چکا ہوں گرزی یا گرزندی یا کوئی اور) نے اخبار میں اشتہار دیا کہ بھٹو کی جگہ مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔

 اس کے برعکس سال دوہزار کے تباہ کن سیلابوں کے دوران عمران خان بونی تشریف لائے تو عوام سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں آپ کے لئے یونیورسٹی تعمیر کررہاہوں حالیہ اس وقت علاقے کے عوام پانی کے بوندوں، روٹی کے ٹکڑوں اور سر چھپانے کے لئے چھت موجود نہیں تھی اس وقت تبدیلی والے لیڈر یونیورسٹی کی مژدہ سنا رہے تھے۔ اکتوبر دوہزار پندرہ کے تباہ کن زلزلے کے بعد عمران خان تو دور کی بات صوبائی وزیر اعلی پرویز خٹک نے بھی چترال کا دورہ کرکے عوام کے مزاج پرسی کی زحمت گوارا نہ کی۔ اپر چترال اور لوئر چترال کا کچھ حصہ گزشتہ اٹھارہ مہینوں سے تاریکی میں ڈوباہوا ہے لیکن صوبائی حکومت کی پھرتی کا یہ عالم کہ انہوں نے اٹھارہ ماہ گزرنے کے بعد بجلی گھر کی دوبارہ بحالی کے لئے ٹینڈر کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے دوستوں سے گزارش ہے کہ بھٹو کاطلسم توڑنا ہے تو بھٹو جیسی قیادت کرنی ہوگی۔۔ عوام کے دکھ درد میں شامل ہونا ہوگا۔ ورنہ فیس بک میں بیٹھ کر بھٹو کو گالی دینے سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں۔

جاتے جاتے یہ بھی بتاتاچلوں کہ بھٹو جتنا بڑا لیڈر تھا اتنے ہی بڑی غلطیوں کے بھی مرتکب ٹہرے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں