283

پشاور میں چترال کے غیر قانونی اڈے ……. محکم الدین ایونی

 خبر آئی ہے ۔ کہ ایم پی اے چترال بی بی فوزیہ کی قیادت میں تحریک انصاف چترال کے صدر عبداللطیف و دیگر معززین پر مشتمل وفد کووزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے ٹرانسپورٹ شاد محمد خان وزیر نے چترالی مسافروں کو درپیش ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ اور اس سلسلے میں چترال کے مسافروں کیلئے پشاور بس ٹرمینل میں علیحدہ سٹینڈ قائم کرنے ، مسافروں سے اضافی اور من مانے کرایہ وصول کرنے کو روکنے ، گنجائش سے زیادہ مسافروں کو گاڑیوں میں ٹھونسنے اور پشاور کی گلی کو چوں میں غیر قانونی اڈے ختم کرنے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نیز وزیر موصوف نے لواری ٹنل پر چترالی مسافروں کی مشکلات کم کرنے کے سلسلے میں این ایچ اے حکام سے روابط رکھنے اور ٹنل کے کھلنے کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات کی فراہمی کو ممکن بنانے کی بات کی ہے ۔ تاکہ مسافروں کو اس دشوار گزار اور مشکل مقام پر ٹنل کے کھلنے کا انتظار کرتے ہوئے مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ چترال کے وفد کی طرف سے اس گھمبیر مسئلے کے حل کیلئے کوشش یقیناًقابل ستائش ہے ۔ اور اس سلسلے میں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کی طرف سے وفد کو دی گئی یقین دہانی بھی قابل قدر ہے ۔ لیکن اس کے باوجود واقفان حال کا کہنا ہے ۔ کہ پشاور میں قائم چترال کے غیر قانونی اڈوں کو ختم کرنا آسان خیال کیا جاتا ہے ۔ شاید یہ اتنا آسان کام نہیں ہے ۔ اور وہ مافیا جو روزانہ لاکھوں روپے بٹور کر اپنے اور پشاور کے ارباب اختیار کی عیاشی کا سامان پورا کرتا ہے ۔ بھلا وہ یہ کام اتنے سہل طریقے سے کرنے دیں گے ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ سیانے لوگوں کا کہنا ہے ۔ کہ پشاور چترال ٹرانسپورٹ میں بہت بڑا پیسہ Involvedہے ۔ پشاور کے گلی کوچوں ، ہوٹلوں ، سرائے اور دکانوں میں اس کے 22 مستقل ا ڈے ہیں ۔ جہاں سے چترالی مسافروں کو ٹکٹ دیے جاتے ہیں ۔ اور ایک اندازے کے مطابق روزانہ کم سے کم 70سے100مسافر گاڑیاں ان اڈوں سے لئے گئے ٹکٹوں پر چترال کا سفر کرتے ہیں ۔ جن سے فی گاڑی 3600روپے اڈا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ اور مجموعی طور پر یہ رقم روزانہ ڈھائی سے تین لاکھ روپے بنتی ہے ۔ جس میں ان غیر قانونی اڈوں کے مالکان اس رقم سے متعلقہ اداروں کو باقاعدہ طور پر بھتہ دیتے ہیں ۔ اور اپنی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ اب یہ کوئی پاگل یا فاترالعقل ہی ہو گا ۔ جو روزانہ کی بیٹھے بیٹھائے ملنے والی آمدنی گنوا دے ۔ اس لئے پشاور شہر میں چترال کے غیر قانونی اڈوں کا خاتمہ کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا ۔ اور ا گر ایسا ممکن ہوا تو اسے تحریک انصاف کی حکومت کا اہم کارنامہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ پشاور حاجی کیمپ اڈے میں چترال کیلئے سٹینڈ سابق ایڈمنسٹریٹر پشاور اور سابق ڈپٹی کمشنر چترال محمد یوسف نے آج سے 20سال پہلے قائم کیا تھا ۔ لیکن اُس سٹینڈ کو ان ہی غیر قانونی اڈے والوں نے ناکام بنا دیا ۔ مسافروں کو ورغلہ کر گلی کوچوں میں ٹکٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اور اپر چترال کے مسافر بھائیوں کو چترال میں قیام سے بچانے کا جھانسہ دے کر راتوں کے سفر کا سلسلہ قائم رکھا ۔ یوں اُس سٹینڈ کا کوئی فائدہ چترالی مسافروں کو حاصل نہ ہو سکا ۔ اور آج بھی چترال کے مسافر ان غیر قانونی اڈوں کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوتے ہیں ، اور اضافی کرایہ ادا کرتے ہیں ۔ اڈہ والے مسافروں کو رات کے ٹائم پر سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور یہ مسافر رات کو سفر کرکے لواری ٹنل پر پہنچ کر 10سے20گھنٹے اور بعض اوقات دو سے تین دن انتظار کی کٹھن صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔ ا یسے میں خواتین ، بچوں ،مریض اورضعیف العمر مسافروں پر جو بیتتی ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔ لیکن اڈے والوں کو تو صرف اپنے پیسے کی فکر ہے ۔ اب جبکہ ہمارے ایم پی اے بی بی فوزیہ ،پی ٹی آئی ضلعی صدر عبد اللطیف نے اس حوالے سے قدم اُٹھایا ہے ۔ اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے بھی یقین دھانی کی ہے ۔ تو چترال کے لوگوں پر بھی یہ فرض ہے ۔ کہ اُن کے ساتھ تعاون کریں ۔ اور عزت کے ساتھ سفر کرنا سیکھیں ۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے ۔ کہ پیسے ڈبل خرچ کریں اور مصیبت و ذلت بھی برداشت کرتے رہیں ۔اگر چترال کے مسافروں نے ساتھ نہیں دیا ۔ تو چترال کے نمایندہ وفد کی کوششیں رائیگا ں جائیں گی ۔ اور مافیا اپنے مقاصد میں کامیاب رہے گا ۔ اس لئے غیر قانونی اڈوں کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں