301

صحت کارڈزکاتقسیم کاراورعوامی تحفظات۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

اگرچہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ خیبرپختونخواحکومت کا صحت کارڈ پروگرام ایک قابل تعریف انقلابی اقدام ہے کیونکہ احوال بتاتے حقائق یہ ہیں کہ جہاں عوام دیگرشعبوں میں سہولیات سے محروم اور مسائل ومشکلات کے شکارہیں وہیں علاج معالجہ کے اخراجات بھی عام آدمی کی پہنچ سے دورہے،ڈاکٹرکے پاس پہنچنے کے وسائل سے لے کرفیس کی ادائیگی،کلینکل لیبارٹریوں کے ٹسٹ اور ادویات خریدناکسی بھی عام شہری کے بس سے باہردکھائی دیتاہے ،طبی مراکزاورعلاقوں میں موجودمریضوں کااحوال پتہ کیاجائے تویہ کہناشائدغلط نہیں ہوگاکہ مختلف جان لیوااورتکلیف دہ امراض میں مبتلا بہت سارے شہری ایسے ہیں جو صحت کی سہولیات،علاج معالجہ کے وسائل اورریلیف سے محروم ہونے کے باعث یاتوزندگی کی بازی ہارجاتے ہیںیاپھرزندہ لاشیں بن کرموت وحیات کی کشمکش میں جی رہے ہوتے ہیں اس تناظرمیں اگر واقعی صحت کارڈکااجراء کاعمل میرٹ، انصاف اورشفافیت پر مبنی ہو تویہ ایک حوصلہ افزاء پروگرام ہے جس سے مستحق غریب اورنادارلوگوں کو صحت کے شعبے میں خاطرخواہ ریلیف فراہم ہوگی لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر جوبھی منصوبے اور پروگرام شروع کئے جاتے ہیں وہ ابتداہی سے بے قاعدگی وبے ضابطگی کی شکایات، طریقہ کارپرتحفظات ،جانبداری ،پسندوناپسند اوراقرباء پروری کے الزامات کے شکارر ہوکر متنازعہ بن جاتے ہیں جن کی حیثیت شروع سے آخرتک شکوک وشبہات کی زد میں رہتی ہے ،انصاف صحت کارڈکاپروگرام بھی ان سے میں ایک ہے جو ابتداء ہی میں شکایات اورتحفظات کی زد میں آگیاہے جس کی بنیادی وجہ اس پروگرام میں صحت کاردزکااجراء بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے لئے کی جانے والے سروے کے تحت کرنا،منتخب بلدیاتی نمائندوں کو یکسرنظراندازکرکے ایم پی ایزاوران کے غیرمنتخب سیاسی کارکنوں کے ذریعے سیاسی بنیادوں پر کارڈزکے لئے ٹوکن کاتقسیم کارسامنے آئی ہے،صوبائی حکومتی اتحادمیں شامل سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے منتخب کونسلرز اگرچہ صحت کارڈ پروگرام بارے اظہارخیال کرتے ہوئے اسے خیبرپختونخوامیں قائم پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی مخلوط حکومت کاایک اچھااقدام قراردے رہے ہیں تاہم اس کے تقسیم کار سے متعلق وہ سخت برہم بھی نظر آتے ہیں ،منتخب کونسلرز الزام لگارہے ہیں کہ کارڈز کااجراء بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے سروے کے تحت کیاجارہاہے جوکہ صوبائی حکومت کی غفلت ولاپرواہی اور نااہلی ہے ان کے مطابق اس پروگرام کے لئے الگ سے غیر جانبدارسروے ہوناچاہئے تھاکیونکہ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے لئے کیاجانے والاسروے سیاسی بنیادوں پر کیاگیاتھاجس میں پسندونا پسنداور اقرباء پروری کی پالیسی کے تحت بڑی تعدادمیں مستحقین کومحروم رکھ کر صاحب حیثیت لوگوں کوریلیف سے نوازاگیاہے،کونسلرزکا مؤقف ہے کہ صحت کارڈزکے تقسیم کارکے عمل میں بلدیاتی نمائندوں کو نظرانداز کرنابھی باعث تشویش امرہے اوروہ اس عمل کی شدید مذمت اوراسے یکسرمسترد کرتے ہیں کیونکہ کہ یہ بلدیاتی نمائندوں کی توہین ہے جبکہ بلدیاتی نمائندے چونکہ مقامی سطح پر عوامی کی صفوں میں موجود ہوتے ہیں انہیں لوگوں کی ضرورت اور استحقاق کابخوبی علم ہوتاہے اورتقسیم کارکاعمل ان سے بہترکوئی انجام بھی نہیں دے سکتے، بلدیاتی نمائندے الزام عائد کرتے ہیں کہ منتخب ایم پی ایز اور غیرمنتخب افرادکے ذریعے صحت کارڈز کے ٹوکن سیاسی بنیادوں پر تقسیم کئے جارہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ کارڈزتقسیم کرنے والے ایم پی ایز محض اپنی جماعت کے منظورنظر لوگوں کونوازتے ہیں جبکہ مستحق لوگ محروم رہ جاتے ہیں جو کہ سیاسی رشوت کے مترادف ہے جبکہ منتخب ممبران اسمبلی کاکام صحت کارڈزتقسیم کرنانہیں بلکہ قانون سازی کرناہوتاہے اوراگریہ کام منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے کیاجاتاتومنتخب ممبران صوبائی اسمبلی کے کرداراور صحت کارڈزکے تقیم کارمیں شفافیت ،میرٹ اوراہلیت سے متعلق عوامی سطح پر انگلیاں نہ اٹھتیں، اس حوالے سے ایک آدھ کونسل سے متفقہ طورپرمنظورہونے والے ایک قراردادمیں صوبائی حکومت سے پرزور مطالبہ کیاگیاہے کہ صحت کارڈز کے تقسیم کارکے عمل میں منتخب بلدیاتی نمائندوں کوشامل جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سروے کی بجائے صحت کارڈزکی شفاف طریقے سے مستحق لوگوں میں اہلیت کی بنیاد پرتقسیم کے لئے الگ سے غیر جانبدارسروے کیاجائے۔ اگرچہ بعض کونسلرزکا اس معاملے میں حکومت کادفاع کرنابھی بجاہے کہ عوام کو صحت کے شعبے میں درپیش سنگین مسائل اور مالی مشکلات کودیکھتے ہوئے عوام کو بلا توقف جلد سے جلد صحت کارڈزکے اجراء وقت کاتقاضاہے جبکہ اس کے لئے الگ سروے کرناایک مشکل اور مزید وقت ضائع کرنے والامعاملہ ثابت ہوگااوراگرصوبے کے دیگرعلاقوں میں بھی صحت کارڈز کی تقسیم کاعمل منتخب ممبران صوبائی اسمبلی کے ذریعے کیاجارہاہے تویہاں بھی اس پر اکتفاء کیاجائے کیونکہ ایسانہ ہوکہ بقیہ کم رہتی حکومتی مدت سروے کرنے اورطریقہ کار بنانے میں لگ جانے سے مستحق عوام صحت کارڈکی سہولت سے محروم نہ رہیں،اگرچہ بلدیاتی نمائندوں کایہ مؤقف بڑی حد تک بجاہے اورضرورت اس امر کی ہے کہ صحت کارڈپروگرام سے عوام کے مستفید ہونے کاعمل جلد سے جلد شروع ہوسکے تاہم وجود رکھتی اس حقیقت کوبھی رد نہیں کیاجاسکتاکہ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام2008 کوپیپلزپارٹی کی تشکیل پانے والی حکومت کا منصوبہ تھاجس پر پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کوشدیدتحفظات تھے اوراس کی بازگشت اب تک سنائی دے رہی ہے کہ یہ پروگرام پیپلزپارٹی نے سیاسی رشوت کے طورپر محض اپنے کارکنان اورمنظورنظرلوگوں کونوازنے کے لئے شروع کیاتھاسو اگر واقعی صحت کارڈزکی تقسیم مذکورہ پروگرام کے سروے کے تحت کی جارہی ہے تویہ پی ٹی آئی کے قول وفعل میں تضاد اور خیبرپختونخواکی مخلوط حکومت کے مبہم کردارپر واضح سوالیہ نشان ہے ۔ جس کاجواب صوبائی حکومت اور تبدیلی کی علمبردارپی ٹی آئی جس کا دعویٰ ہے کہ صحت کارڈزپروگرام پی ٹی آئی کے انتخابی منشورکاحصہ اور عمران خان کے وژن کے مطابق ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں