232

اکیسویں صدی کے جدید غلام۔۔۔۔شمس الرحمن تاجک

دنیا کو ہم کس نظر سے دیکھ رہے ہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہماری تربیت کس نہج پر ہوئی،ہم کیا پڑھ رہے ہیں، کیا دیکھ رہے ہیں اور کون دیکھا رہا ہے، پانی لگاتار کسی پتھر پر گرتا رہے لازم ہے کہ ایک دن پتھر میں سوراخ ہوجائے، یہی بات جدید بلکہ ہر دور میں انسان پر بھی آزمایا جاچکا ہے اور آزمایا جارہا ہے، لگاتار وہ بات آپ کو بتائی جاتی ہے جس سے کسی خاص فرد کے مفادات وابستہ ہیں پھر ایک دن خالصتا ذاتی مفادات کی باتیں آپ کو اپنی اپنی سی لگنے لگتی ہیں، آپ ان کو قانون کا حصہ بنانے پر تیار ہوجاتے ہیں، آئین کا حصہ بنا لیتے ہیں، مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب آپ کے پیرو مرشد اپنے ذاتی مفادات کے قوانین کو آپ کے کندھوں پر سوار ہوکر قانون کا حصہ بنانے کے بعد آپ ہی پر استعمال کرنے لگتے ہیں۔
مملکت خداداد میں مغل اعظم بھی ایسی زندگی گزارنے کا تصور نہیں کرتے ہوں گے جیسے کل کے سڑک چھاپ آج گزار رہے ہیں ان کی قابلیت کرپشن کی حمایت میں بے تکان بولنا اور کھلی آنکھوں مکھی نگلنے میں مضمر ہے، مگر 20 کروڑ ہم عام لوگ جن کے ساتھ یہ خواص ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ ڈیٹول سے دھوتے ہیں وہ اب بھی نہیں سمجھیں گے، ہمارے ملک میں لوگ سیاست میں آتے ہی اس لئے ہیں کہ اس میں بے حساب پیسہ ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں، آپ آج مرغی خانہ چلا رہے ہیں پانچ سال کے لئے صوبائی یا قومی اسمبلی کا ممبر بن جائیں اپنی آنے والی کئی نسلوں کے لئے پیسہ بنانا کوئی بڑی بات نہیں رہتی، پھر سرراہ بچھے جانے والے لوگ الگ،شہنشاہوں جیسا پروٹوکول الگ، آپ ادھر انتخاب جیت جاتے ہیں ادھر آپ پر ہن برسنے لگتا ہے، اس پر کبھی کسی نے سوچا ہے؟، ہم اگر ایسی باتوں کے بارے میں سوچتے توکیا ایسے حکمران منتخب کرتے، یقیناہم سوچتے نہیں، ہم مسیحاؤں کا انتظار کرنے والے لوگ، خود ہاتھ پیر چلانا گناہ کبیرہ میں شمار کرتے ہیں اب شاید مسیحاؤں کو بھی ہمارے جیسے بے حس اور کرپشن میں سر سے پیر تک ملوث معاشرے میں آنے سے بھی ڈر لگنے لگا ہے، ہمیں مسیحا بھی اپنی مرضی والا چاہئے جو ہمارے ہاتھ پیر ہلائے بغیر ہمارے سارے مسائل حل کردے، کیا ایسا ممکن ہے؟۔
اتنے پیارے اور وسائل سے مالا مال ملک کو اپنا ماننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں اگر اپنا مان لیتے تو لیٹروں کا احتساب بھی ہوتا، ہر مالک کو اپنی ملکیت کی فکر ہوتی ہے، جن کو لیڈر مان کر ملک ان کے حوالے کیا ہے وہ سیاسی دکاندار تو اپنے کاروباری دورے پرپاکستان آتے ہیں، ان کے کاروبار ملک سے باہر، ان کے بچے ملک سے باہر، ان کے سارے دھندے ملک سے باہر، وہ خود ملک سے باہر، افسوس بھول گئے، ملک ان کا تھوڑی ہے ملک تو ہمارا ہے ان کی شہریت بھی ملک سے باہر کی ہے، اب سب کچھ باہر ہے تو پھر اس ملک کی ترقی سے، امن و امان سے اور بنیادی انسانی ضروریات کے حصول یا دستیابی سے ان کا کیا لینا دینا، اگر میں کسی دوسرے ملک چھٹیاں گزارنے جاتا ہوں اس ملک کی حالت زار کچھ بھی ہو اس سے میرا کیا واسطہ، مجھے واپس اپنے پاکستان آنا ہے، یہی ہمارے منتخب لوگوں کا رویہ اور وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ یہاں صرف حکمرانی کرنے آتے ہیں، ان کی تو شہریت بھی جب وقت آتا ہے تو کسی اور ملک کا نکل آتا ہے۔ ہر راہ چلتے شخص کو لیڈر بلکہ رہنما مانا جاتا ہے، جب ہر کس و ناکس کو آپ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ آپ کا رہنما اور لیڈر ہے پھر لیڈر کی مرضی وہ آپ کو اندھے کنوان میں گرائے یا دریا برد کرے۔ یہاں مرے ہوئے لوگوں کے لئے زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں اور زندہ لوگ ایک وقت کی روٹی کے حصول کے لئے بچے سرے بازار برائے فروخت پیش کردیتے ہیں، اس معاشرے میں آپ اگر 104 ارب کے کرپشن کیس میں رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں تو 2 ارب نیب کو پکڑا کسی بھی غیر ملک میں باقی زندگی شاہانہ طرز سے گزار سکتے ہیں۔یہاں سرکاری ملازموں کو سرکار کام نہ کرنے کی مد میں تنخواہ دیتی ہے غلطی سے کوئی سرکاری ملازم اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے انجام دینے لگے تو ان کی کم سے کم سزا معطل ہونا ہوتا ہے، ہم باقاعدہ نئے سرکاری ملازمین کو کرپشن کے طریقے سیکھاتے ہیں اگر وہ ہمارے کرپٹ سسٹم کا حصہ بننے سے انکار کردیں تو نیکوکارہ جیسا عضو معطل بنادیتے ہیں پھر بھی نہ مانے تو انسپکٹر اعجاز جیسی موت دیتے ہیں۔
پھر بھی ہم سوچتے ہیں کہ یہی سسٹم اور اسی سسٹم کے اندر کام کرنے والے لوگ تبدیلی لاسکتے ہیں! اسی سسٹم سے جو لامحدود اختیارات اور لامحدود کرپشن کے بعد جو لوگ بچ جاتے ہیں وہ اس سسٹم کو تبدیل کرنے دیں گے، یہ دیوانے کا خواب ہے اور دیوانوں کو صرف خواب دیکھنے کی اجازت ہے، خوابوں کی تعبیر بھی مل جائے ایسا کہاں لکھا ہوا ہے؟۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں