284

کیا ہم کسی خیر کے کام میں معاونت کرنے کی بجائے مخالفت کرنے کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں یا سیاست۔۔۔۔عنایت اللہ اسیر سماجی کارکن

ہمیں تو حکم ہے کہ خیر کے کام میں تعاون کرو او رشر کا راستہ روکو۔چترال جو محبتوں کا گہوارہ ، رواداری کا مسکن، برداشت اور معاونت میں مثالی حیثیت رکھتا تھا آج ہمیں کس کی نظر لگ گئی ہے کہ ہر کوئی قلم اٹھائے اپنے سیاسی اختلاف کے پیشِ نظر غیرسیا سی فلاحی تنظیمات کے فلاحِ انسانیت کے کاموں کی بھی مخالفت کواپنا فریضہ سمجھتے ہیں حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ چترال کے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ہمیشہ باہر سے آنے والے ہر سیاسی جماعت کے قائد کے استقبال میں سب مل کر کوئی کوتاہی نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی چترال آمد ہو یا میاں طفیل محمد یا مولانا فضل الرحمان اور ارباب سکندر خان خلیل اور مسلم لیگ کے قائدین جب بھی چترال آئے ہم نے مل کر چترال کے باشندوں کی مہمان نوازی کی روایت کو دکھاتے رہے۔ حتٰی کے مارشل لاء کے ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو بھی سیاسی اختلافات کے باوجود بھر پور عزت دے کر دکھایاکحچھ مدت پہلے انصاف اور انقلاب کے داعی خان عمران خان کو جو پذیرائی ان کی تشریف آوری پر تمام سیاسی جماعتوں نے کی اور وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں نواز شریف کے ان کے باورچی کے ولیمے پر چترال تشریف لانے پر جس والہانہ انداز سے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین بمعہ کارکنان استقبال کیاوہ چترال کے باشندوں کی سیاسی بصیرت اور مہمان نوازی کا نمونہ تھا ان کے ضلعی حکومت کے ساتھ مالی امداد کا اعلان سیاسی اختلاف کے باوجود نہایت مستحسن قدم تھا۔ اس موقع پر چترال کے لیے یونیورسٹی کے قیام کا اعلان اور اربوں روپے کے ترقیاتی کامو ں کے اعلانات کے باوجود اردو کی کلاس لگی۔ ان چند تمہیدی کلمات کے ساتھ اگر اس بات کی بھی نشاندہی کی جائے تو بے جا نہ ہوگاکہ چترال کے باشندوں نے چترال کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور FDCکے ذریعے 60%رائلٹی کے بے جا تقسیم کے خلاف بھی اپنے قائدین کو لے کر متفقہ جدوجہد کی جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تمام جماعتیں شامل رہیں۔
چترال ٹاؤن جو کہ پورے ضلعے کی مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں کے ہسپتالوں میں چترال کے تمام علاقوں سے مریض آکر اپنا علاج کرواتے ہیں۔ سول جج ،سیشن جج اور واحد ضلع ہونے کی بنا ء پر پورے ضلع کے انتظامی ذمہ داران کے مرکزی دفاتر اسی چترال شہر میں واقع ہیں ۔ چترال سکاؤٹس کا ہیڈ کواٹر ہونے کے ناطے پاک آرمی کے ہزاروں جوان اسی ٹاؤ ن سے چترال کے دور دراز علاقوں کی سرحدات کی حفاظت کرتے ہیں ۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مسافر پاکستان کے مختلف علاقوں سے چترال پہنچ جاتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں کو نکل جاتے ہیں۔ہسپتالوں میں پڑے ہوئے مریض اور ان کے تیمار دار وں کے علاوہ عدالت میں پیشی کے لیے آنے والے افراد چترا ل ٹاؤن میں ملازمت کرنے والے چترال کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین یونیورسٹی ، کالج اور سکولوں میں پڑھنے لوالے طلباء روشنی کے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر چترال کی ایک فلاحی تنظیم SRSPنے بیرونی امدادی ایجنسیوں سے درخواست کر کے چترال ٹاؤن کے لیے 2MWبجلی گھر کی تعمیر کا اعلان کیا اور اس اعلان کے ساتھ ہی اس کے لیے وافر پانی اور اونچائی کی تلاش میں کوغزی کے گولین گول کے نالے پر اس بجلی گھر کی تعمیر کو Feasibleقرار دے کر کام کا آغاز کیا گیا اور تمام بجٹ چائنا سے تمام سامان اس مقام تک پہنچانے اور ٹیکنیشنز کو بھی چائنا ہی سے لا کر اس کی تعمیر مکمل کی گئی ۔ واپڈ ااور شیڈوکی جو ٹرانسمیشن لائن چترال تک پہنچائی گئی ہے اسی لائن سے اس بجلی کو چترال ٹاؤن پہنچانے کا معاہدہ کیا گیا۔ جس سے چترا ل ٹاؤن کے تمام باشندے مطمئن ہوئے اور خوشی کا اظہار کیامگر جس گریڈ سٹیشن تک اس پاور کو پہنچایا گیا وہ گریڈ سٹیشن اس پاور کو حاصل کرنے اور تقسیم کرنے کے قابل نہیں تھا۔ جس کی بناء پر پاور ہاؤس سے بجلی کی پاور کو کم کر کے لانے پر مجبور ہونا پڑا۔ گولین گول کا وہ پانی جو مئی سے لے کر ستمبر تک بہت وافر اور ذیادہ لگتا تھا سردیوں کے موسم میں اس 2MWبجلی گھر کو چلانے کے لیے ناکافی ثابت ہوا۔ جو بجلی پاور ہاؤس سے ایک میگا واٹ کی صورت میں چترال ٹاؤن کے لیے چھوڑی جاتی اسے جوٹی لشٹ کا گریڈ سٹیشن تقسیم کرنے کے لیے ناکافی ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے الیکٹریکل اور بجلی کے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے صرف دس دن کے لیے بجلی کی سپلائی کو چترال ٹاؤن کے لیے بند کیاتاکہ اس مسئلے کا مستقل حل نکال کر چترال ٹاؤ ن کے تمام باشندوں کے بجلی کے مسئلے کو مستقل حل کیا جا سکے۔ مگر جو لوگ سالوں بجلی کی مشکلات سے دوچار اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں نہایت صبر،اطمینان اور خاموشی کے ساتھ گزارا کیا کرتے تھے ، آ ج کے دس دن ان سے برداشت نہ ہو سکااور SRSPکے غیر سیاسی صرف فلاحِ انسانیت کی غرض سے کروڑوں روپے کے فنڈ سے بجلی گھر کی تعمیر اور اس کی روشنی چترال ٹاؤن پہنچانے کے لیے ہزاروں مشکلات مالی کے علاوہ علاقائی لوگوں کے اختلافات کو انگیز کرتے ہوئے کام کو اپنے اختلافی نوٹ اور بلا جواز اور ثبوت کے الزامات تراشنے سے گریز نہیں کیا۔ جس سے صرف SRSPہی نہیں دیگر فلاحی تنظیمات کو بھی زک پہنچا اور جن ڈونرز نے چترال کے باشندوں کے روشنی کے مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں کثیر رقم فراہم کی تھی۔ ان کی بھی دل آزاری کی گئی حالانکہ ان کو نہ ہمارے نوٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی ووٹ کی۔اس سلسلے میں تمام سیاسی قائدین ،تنظیمی ذمہ داران، سفید ریشانِ علاقہ ، لکھاری حضرات اور نوجوانوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اگر کوئی اختلافی نوٹ اپنی شخصی آزادی کی بنیا د پر لکھ بھی ڈالے تو اس کا جواب قرینے اور سلیقے سے دینا نہ بھولیں تاکہ آپ کی خاموشی کسی غلط خیال کو صحیح سمجھنے کا ذریعہ نہ بنے۔

نہایت ضروری امر یہ ہے کہ اپنے گھر کے مسائل اپنی جگہ ان کو اخبارات کی زینت بنا کر چترال کے باشندوں کی مشکلات حل کرنے کے سلسلے میں امداد کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ SRSPچترال کے باشندوں کے متفقہ مطالبے پر پورے چترال میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے تمام فلاحی کام ہر قسم کے سیاسی ، مسلکی ، علاقائی اور رنگ و نسل و زبان کے اختلافات سے بالا تر ثابت ہوئے ہیں۔ ہم چترال کے تمام باشندے چترال میں کام کرنے والے تمام سرکار ی ، غیر سرکاری اور فلاحی تنظیمات کے چترال کے باشندوں کی مشکلات کے وقت امداد کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور چترال انتظامیہ کے ساتھ ساتھ پاک آرمی او
ر چترال سکاؤٹس کی خدمات کو آفرین پیش کرتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں