291

’’صد سالہ کانفرنس جے یو آئی‘‘۔۔۔۔۔۔ ارشاد اللہ شادؔ ۔۔بکرآباد چترال

جمعیت علماء اسلام کی تاریخ مشکلات سے بھی پڑی ہے ۔ علماء ہند نے کبھی بھی طاغوتی طاقتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور جمعیت علماء اسلام اپنے اکابرین کے نقش قدم پر رواں دواں ہے ۔ دیوبندی مکتب فکر کے متعلق انگریز جیسے حریف نے حقیقت کا اعترا ف کرتے ہوئے کہا تھا کہ علماء کی اس جماعت نے کبھی بھی ہمارے ساتھ Compromiseنہیں کیا، ہم ان کو درختوں پر لٹکا کر بھی دیکھ لیا ، یہ لوگ اپنے مشن کی تکمیل سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے ،نہ ان کو قید و بند کی صعوبتیں اپنے مشن سے ہٹا سکیں اور نہ ہی کوئی لالچ علماء کی اس جماعت کو خرید سکا ۔ جن کے متعلق انگریز جیسے دشمن کے یہ الفاظ ہوں انہیں آ ج کے حکمران کیسے ورغلا سکتے ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام حق و صداقت کا ایک عظیم قافلہ ہے جس میں کہیں ہمیں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نظر آتے ہیں ، کہیں رشید احمد گنگوہی ؒ ، کہیں مالٹا کے جزیروں میں شیخ الہند مولانا محمود حسن اور کہیں حضرت مدنی ؒ نظر آتے ہیں۔
پاکستان جوتقسیم ہند کے نتیجے میں وجود میں آیا ، یہ صرف چند سال کی مختصر جدوجہد کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے علماء کی طویل قربانیوں کا سلسلہ ہے ۔اگر علماء انگریزوں کے خلا ف آواز بلند نہ کرتی ، علماء کی لاشوں کو درختوں میں لٹکایا نہ جاتا ، علماء کے جنازے جیلوں سے نہ نکلتے ، علماء قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہ کرتے ، جلا وطنی کی زندگی نہ گزارتے تو نہ صرف آج پاکستا ن سمیت سارے ہندوستان پر انگریز کا قبضہ برقرار رہتا بلکہ آج ترکی بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہوتا ۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف علماء کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کاصلہ ہے کہ ہم آج ایک آزادقوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام اپنے اکابرین کے مشن پر گامزن ہے اور دین اسلام کی بقاء کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔اسلئے ذی شعور انسان کو چاہئے کہ اہلیت ،قابلیت اور خلوص کو دیکھے ۔ حضرت عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے مشیر علماء ہوتے تھے خواہ بڑی عمر کے ہوں یا جوان ( حیاۃ المسلمین ۱۹۲)۔
جس وقت معاشرے میں درندہ صفت انسانوں کی اکثریت ہو اور ماحول میں غیر معمولی خرابی واقع ہو یعنی عام سطح پر حالات بگاڑ کا شکار ہو ں تو اس وقت انقلاب لانا لازمی ہو جاتا ہے ۔ وہ معاشرہ جو افراد کی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کرسکے اُسے آگ لگ جانا ہی بہتر ہے ۔ انقلاب کوئی پھولوں کی سیج نہیں ، بلکہ ایک دشوار گزار ، تعذیب و آزمائش اور مصائب و آلام سے پُر راستے کانام ہے ۔ بلاشبہ اس کے ثمرہ میں آرام و آسائش ، راحت و مسرت اور اقتدار و آزادی ہے مگر اس منزل تک رسائی کیلئے پہلے کانٹوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ اپنی دل پسند اور محبوب اشیاء کو چھوڑنا پڑتا ہے، اس سفینے کے سوار اور ملاح وہی بن سکتے ہیں جو تربیت یافتہ، مخلص، متحمل مزاج، دلیر اور اپنے اوپر اعتماد رکھتے ہوں ۔ انقلاب میں کبھی دشمن سے سرد جنگ کرنی پڑتی ہے اور کبھی نوبت کشت خون تک جا پہنچتی ہے۔ اس لئے مولانا سندھی ؒ فرماتے ہیں کہ انقلا ب کی راہ میں جو کچھ بھی کیا جاتا ہے بہترین اعمال شمار ہوتا ہے۔
قارئین! اگر ہم جمعیت علماء اسلام کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح نظر آئے گا کہ جب تک مخلص اور لگن سے کام کرنے والے رفقاء رہے تو جے یو آئی بام عروج پر پہنچی ۔ اب الحمد اللہ آنے والے صد سالہ اجتماع میں ایک بار پھر ہمیں مخلص اور با کردار قیادت میسر آئی ہے ۔ ہم اپنی قیادت پر مکمل اعتمادکا اظہار کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انتہائی خلوص اور لگن سے صرف رضا الہی کے حصول کیلئے کام کریں ، دن رات جدوجہد کریں ۔ اگر ایسا ہوا تو میدان ہمارا ہے اور کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ لیکن اگر ہم اب بھی مفاد پرستی ، زر پرستی اور لالچ کا شکار ہوئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ، دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہونگے اور اللہ کی عدالت میں بھی ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ہوگی۔
صد سالہ کانفرنس ہمارے لئے سعادت اور مسرت کا دن ہے ۔ اس دن ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم ملک میں کیا چاہتے ہیں اور کس نظام و کلچر کو اپنے معاشرے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔ اس دن ہمیں یہ عہد کرنا ہوگااور ہمیں او ر آپ کو کمر بستہ ہونا ہے اور ایسی جدوجہد کرنی ہے کہ جس کے نتیجے میں قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہوں ۔ پاکستان کا مقصد کیا ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ لیکن ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کا نعرہ لگا کر مقصد سے انحراف کی سزا ملک میں معاشی بد حالی ، سیاسی انا، اور معاشرتی ابتری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ توانائی کے بحرانوں نے صنعتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ، سرمایہ کاری صفر اور لا قانونیت اپنے عروج پر ہے ۔ کرپشن ، رشوت، اقرباء پروری ، سرکاری نا اہلی اور سیاسی بد انتظامی اپنی تما م تر حشر سامانیوں کے ساتھ ملک کے امن و سکون کو غارت کر رہی ہے۔ نسلی ، علاقائی ، لسانی اور مسلکی عصبتیں ، اسلامی اخوت و ملکی وحدت کے در پے ہیں، لیکن حکومت ان کے سد باب کے بجائے افزائش میں دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لیکن جمعیت علماء اسلام وہ واحد جماعت ہے جس کا منشور ہی یہی ہے کہ خداکی زمین پر خدا کا نظام ہونا چاہئے۔کیونکہ جب تک علماء کرام کے حکمرانی نہ ہو اس وقت تک ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ اس سلسلے ۷،۸،۹ اپریل کو جمعیت علماء اسلام کاعظیم الشّان صد سالہ اجتماع بمقام رائل ہومز سٹی اضاخیل نوشہرہ پشاور میں منعقد ہو رہا ہے۔ جس میں 52اسلامی ممالک کے مندوبین کے علاوہ ، دنیا بھر سے جمعیت علماء اسلام کے رہنما و اکابرین ، اسلامی ممالک کے سفراء، عالمی تنظیموں کے نمائندگان، اور ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں جمعیت علماء اسلام کے قائدین و کارکنا ن شرکت کریں گے۔
صد سالہ یوم تاسیس امت مسلمہ کی سب سے بڑی کانفرنس ہوگی ۔ کیونکہ قیام پاکستان میں علماء کا بہت بڑا کردار ہے، اس اجتماع میں اس حوالے سے تاریخی بیانات ہوں گے۔امید کی جاتی ہے کہ اس حوالے سے ضلع چترال سے بھی صد سالہ تقریب کیلئے ہزاروں کی تعداد میں کارکنا ن شرکت کریں گے اور صد سالہ تقریب ملک میں اسلامی نظام کے قیام کیلئے سنگ میل ثابت ہوں گے۔ آئے روز صد سالہ اجتماع کیلئے چترال میں جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ قابل تحسین ہے ۔ انہی کاوشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ یقین کی جا سکتی ہے کہ کارکن پوری تن دہی اس حوالے سے اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں گے اور اس عظیم الشّان صد سالہ کانفرنس کو بخوبی پایہ ٗ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
قلم ایں جا رسید وسر بشکست……!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں