271

چترالیوں کی امن پسندی اور جزا کے بجائے سزا۔۔۔عبدالحق چترالی 

ملاکنڈ ڈویژن کے پورے نصف رقبے پر مشتمل ضلع چترال اس وقت بھی دو اضلاع پر مشتمل تھا جب ملاکنڈ ڈویژن صوبہ خیبر پختونخوا (این ڈبلیوایف پی ) میں ضم نہیں ہوا تھا ۔ اس سے قبل 1969 ؁ء میں خیبر پختونخوا کے اضلاع کی تعداد صرف 3 تھی ۔ جب ملاکنڈ کا نیا ڈویژن صوبے میں ضم ہوا ۔ تو اس وقت ضلع سوات ، ضلع دیر اور ضلع چترال سے ضلع مستوج کو توڑ کر یہ تین اضلاع ملاکنڈ ڈویژن مین شامل کئے گئے اسطرح اس وقت ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع کی تعداد چھ ہوگئی ۔ رفتہ رفتہ اضلاع کی تعدا د بڑھتے گئے اور آج ماشاء اللہ کوہستان جیسے چھوٹے ضلع کو بھی تین اضلاع بناکر صوبہ خیبر پختونخوا میں اضلاع کی عددی اکثریت کو 27 تک پہنچا دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کے نظر کرم جسطرف اٹھتی ہے وہاں کوئی میرٹ ،میزان عدل اور اصول کی پرواہ کیے بغیر فیصلے صادر کئے جاتے ہیں ۔ میرٹ پر آپ جائیں تو ضلع چترال جو 14850مربع کلومیٹر پر محیط چھ سو دیہات اور دروں پر مشتمل قدرتی آفات سے گھرا ہوا علاقہ ہے ۔ اس کو پہلی ترجیح ہونے چاہئیے تھی کیونکہ تنظیمی اور سٹریٹیجک لحاظ سے اہمیت ہی کی بنا ء پر 1969 ؁ء سے پہلے یہ دو ضلعوں پر مشتمل تھا جب 1969 ؁ء میں غیر محسوس طریقے سے چترالی عوام پر پہلا وار کیا گیا اور اسکے نتیجے میں زخم اب بھی تازہ اور درد ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔
انتظامی امور کا یہ عالم ہے کہ 2015 ؁ء میں میٹرک کے امتحان دینے والے دسیوں طلبا ء مین روڈ سے اپنے اپنے گھروں کو آتے ہوئے برفانی تودے کے نذر ہوگئے اور کئی ہفتے ان کی لاشیں نکالنے میں لگ گئے ۔ اور 2016 ؁ء کے آخر میں بھی اسطرح ایک پورے کا پورا گاؤں گلیشر کے زد میں آیا۔ خوش قسمتی سے لوگوں کی اکثریت خطرہ بھانپتے ہوئے اپنے گھروں سے محفوظ علاقوں کی طرف نکل چکے تھے تاہم جو افراد وہاں موجود تھے ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا اور کئی دنوں کی محنت شاقہ کے بعد لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں نکالنے میں کامیاب ہوئے۔اسکے علاوہ 2015-16 کے سیلابوں کیوجہ سے مجموعی طورپر ساٹھ تک قیمتی انسانی جانیں ضائع ، کئی گھرانے ، رابطہ سڑکیں اور پل دریا برد ہوئے ،یہ سنبھلنے نہیں پائے تھے کہ پورا چترال زلزلہ کے زد میں آیا اور ویرانوں میں تبدیل ہوگیا۔ یہ چند مثالیں پرانے نہیں بلکہ حالیہ سالوں کے افسوسناک سانحات ہیں ۔ جن کی وجہ سے چترال کے عوام آج بھی مشکلات سے نہیں نکل پائے ہیں ۔
ان مسائل کے تدارک کا واحد حل چترال کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنا ہے ۔ تاکہ سب ڈویژن مستوج حسب سابق الگ ضلع ہو اور اسطرح ہنگامی حالات سے وہ خود بروقت نمٹ سکے ۔ اور متوقع حادثات کیلئے وہ نہ صر ف مستعدبلکہ عملی طور پرپوری طرح تیار بھی ہو ۔ اور ھیو ی مشینر ی کے ساتھ سکاؤٹس اور پولیس کے جوانوں سمیت ریسکیوکا عملہ بھی دستیا ب رہے۔جب تک چترال کی 1969 ؁ء سے پہلے کی حیثیت بحال نہ کی جاتی ،اس وقت تک عوام مشکلات کے دلدل میں پھنسے رہینگے اور سیاسی پارٹیوں کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان نوراکشتی میں غریب عوام ان کے پیروں تلے دبتے ہی چلے جائینگے ۔ اس انتہائی اہم مسئلہ کے حوالے سے عوامی نمائندوں کی پراسرار خاموشی شاید اس وجہ سے ہے کہ ان میں ہر ایک بڑے ضلع میں اپنی بادشاہت پکی اور کامیابی یقینی سمجھتا ہے ۔ اور چترال دو ضلعوں میں تقسیم ہونے کی صورت میں مقابلہ سخت ہونے کا ہر ایک کو اندیشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں ڈسڑکٹ کو نسل چترال میں اس حوالے سے ایک موہوم اوربے جان سی آواز سنائی دی لیکن اس کو بے توقیر سمجھ کر گراس روٹ لیول پر مشورے کے بہانے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔تاہم عام عوام کی طرف سے دو اضلاع کا مطالبہ ہمیشہ حکمرانوں سے کیا جاتا رہا ہے لیکن عوام کی آواز کو صدا بہ صحرا ہی سمجھا گیا ہے۔
قدرتی آفات کے بعد اقلیت کے نمائندوں’’یعنی اکثریتی ووٹروں کے رائے سے محروم طبقہ‘‘کی طرف سے مگر مچھ کے آنسو رونے سے عوام کو مستقل ریلیف تو نہیں مل جاتامگر کریڈٹ لینے کیلئے ان کی بیتابی قابل دید ہوتی ہے ۔بسا اوقات ایک معمولی پراجیکٹ کامختلف سیاسی افراد باری باری افتتاح کرلیتے ہیں گوکہ آج کل چترال میں موسم بہارکی رونق کم اور افتتاحوں کا رسم بد اور فوٹو سیشن زوروں پر ہے تاہم دو سالوں کے کھنڈرات زبان حال سے یہ اعلان کررہے ہیں کہ چترال کے عوامی مسائل کا مستقل حل صرف اور صرف ضلع مستوج کی بحالی سے منسلک ہے ۔ اسمیں آٹھ ہزار افراد کو نئی ملازمیتں ملیں گی ۔ ترقیاتی بجٹ میں کم از کم تین ارب اور انتظامی امور کیلئے ڈیڑھ ارب سے زیادہ کا حصہ ملے گا ۔ قومی اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملے گی۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندوں کی دیدار چھوٹے اور دورافتادہ علاقوں کے غریب عوام کو بھی نصیب ہوگا۔تاہم پاکستان میں عدل و انصاف کا پہیہ اُلٹا گھوم رہا ہے اور جزاؤ سزا کی منطق بھی کچھ عجیب سی ہے پچھلے دنوں ہمارے چترال کے مشہور و معروف تجزیہ کار اور کالم نگار ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب اپنے ایک مضمون میں دو ضلعوں پر مشتمل چترال کو ایک ضلع بنانے کے جوازکا مبنی بر حقیقت اور چشم کشا حوالہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’انتظامی امور کے ماہرین اور محققین کی توجہ کیلئے وہ رپورٹ بھی لائق تحسین ہے جو مئی 1969 میں چترال کے اندر ضلع مستوج کو توڑنے کے جواز میں اس وقت کے پولٹیکل ایجنٹ افتخارالدین خٹک نے حکومت کو بھیجی تھی۔ رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ مستوج کا ضلع آٹھ ہزار نوسو8900} { مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اس کی آبادی 67 ہزار ہے۔ افغانستان کے ساتھ اس کی 370 کلومیٹر سرحد لگی ہے ۔ علاقے میں تین پولیس سٹیشن قائم ہیں۔ ان میں قتل، اقدام قتل، اغوا، ڈکیتی وغیرہ کی ایک بھی ایف آئی آر نہیں ہے۔ اس ضلع پر سالانہ بجٹ خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کو توڑ کر ملازمین کو فارغ کیا جائے اور علاقہ کو چترال ضلع میں شامل کیا جائے‘‘۔مستوج کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ مئی 1969 اور مارچ 2017 کے درمیاں جو عرصہ گزرا۔ ماہ وسال کے حساب سے 48 سال بیت گئے۔ رقبہ وہی ہے البتہ آبادی 67 ہزار سے بڑھکر دولاکھ 73 ہزار ہوگئی۔ افغان مہاجرین کے آنے کے بعدقتل،اقدام قتل، اغوا،ڈکیتی وغیرہ کی وارداتیں بھی حسب منشاء ہونے لگیں۔ مگر کوہستان آخر کوہستان ہے چترال اس طرح کی وارداتوں میں کوہستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ 48 سال پہلے ملاکنڈ ڈویژن میں ضم ہوتے وقت چترال کے دو ضلعے تھے اور خیبر پختونخوا کے تین ضلعے تھے۔ اب خیبر پختونخوا کے ضلعوں کی تعداد 27 ہوگئی ہے ۔چترال کا پرُانا ضلع بحال نہیں ہوا۔چترال کے چار اضلاع ہونے کے بجائے ایک ہی ضلع رہ گیا ہے اور یہ بھی غنیمت ہے۔
بات آپ کی سمجھ میں آئی ہوگی ، قصہ مختصر یہ کہ یہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ سے بھی حالات کچھ بدتر چلے آرہے ہیں۔ اسلئے چترالی عوام کو حد سے زیادہ شرافت نہ صرف مہنگا بلکہ اس کا سزا بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔اسلئے عوام کو اپنے رویے میں کچھ تبدیلی کرنی ہوگی اور اس اہم مسئلے کے حل کیلئے میدان عمل میں اُترنا ہوگااور ابھی سے دواضلاع کیلئے تحریک شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی مصمم ارادہ کرنا ہوگا کہ جب تک ضلع چترال کی 1969 سے پہلے کی حیثیت بحال نہیں کی جاتی۔آنے والے الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے گا اور کسی بھی سیاسی امیدوار کو الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں