294

صوبائی حکومت کی طرف سے صحت کی سہولیات کی فراہمی کے بلند بانگ دعوں کے باوجود چترال میں مریض در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں

چترال ( محکم الدین) صوبائی حکومت کی طرف سے صحت کی سہولیات کی فراہمی کے بلند بانگ دعوں کے باوجود چترال میں مریض در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ اور ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال مریضوں کو سہولت دینے میں تاحال ناکام رہا ہے ۔ ہسپتال میں ایکسرے مشین خراب ہے ۔ بجلی ندارد ، مریض ا دویات سابقہ کی طرح اب بھی بازارسے خریدنے پر مجبور ہیں ، مستہزاد یہ کہ غریب لوگوں سے بچوں کے ختنے کی فیس کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں ۔ جبکہ ایم ایس کو اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ چترال بروز کے رپائشی محمد نواز نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ ہسپتال میں ایکسرے خراب ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے معصوم بچے کے ٹانگ کا ا یکسرے کرنے سے محروم ہے ۔ کیونکہ پرائیویٹ کلنک میں وہ اخراجات برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ غریب و نادار مریضوں کو ہسپتال میں دُھتکارا جاتا ہے ۔ اور مشینریز کی خرابی کی ذمہ داری اور مرمت حکومت پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ تعجب کی بات یہ ہے کہ پرائیویٹ کلنک میں بڑی تعداد میں مریضوں کے ایکسرے کئے جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ کبھی خراب نہیں ہوتے ۔ اس حوالے سے جب ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال سے رابطہ کیا گیا ۔ تو انہوں نے کہا ۔ کہ ایکسرے مشین میں خرابی آئی ہے ۔ اور مشینری میں ایسی خرابیاں آتی رہتی ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ صوبائی ہیلتھ کو خط لکھیں گے ۔ جس کے بعد مشین کی مرمت کیلئے مکینک پشاور سے چترال آجائے گا ۔ جبکہ ایکسرے مشین اپریٹر سردار خان کے مطابق تین مشین موجود ہیں ۔ جن کیلئے 220وولٹیج کی صحٰح بجلی درکار ہے ۔ اس کے بغیر ان مشیوں کو استعمال کرنا نقصان کا باعث ہو گا ۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں بچوں کے ختنے کی فیس کے طور پر بھی بھاری رقم لی جاتی ہے ۔ جبکہ ایم ایس کے مطابق اس قسم کی فیس ہسپتال کے اندر وصول کرنا غیر قانونی ہے ۔ اس کے باوجود فیس وصولی کا سلسلہ جاری ہے ۔ عوامی حلقوں نے کہا ہے ۔ کہ صوبائی حکومت کے اقدامات کے باوجود غریب لوگوں کی ہیلتھ فیسلٹی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ اور لوگ بدستور مشکلات کا شکار ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یاتو حکومت کے اعلانات کھوکھلے ہیں ۔ یا انہوں نے ہسپتالوں کے انتظامات نااہل افیسروں کے سپرد کی ہے ۔ جو عوام تک سہولیات پہنچانے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اور بدنامی صوبائی حکومت کے گلے پڑتی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں