581

بعنوان’’علامہ اقبالؒ اور قادیانیت‘‘۔۔۔ازقلم:حسیب اعجاز عاشر

دابستان اقبالؒ کے زیراہتمام بریگیڈیر(ر)پروفیسر ڈاکٹروحیدالزمان طارق کا خطبہ
اس میں کوئی ابہام کی گنجائش قطعی نہیں کہ وجہ تخلیق کائنات آخری نبی الزمان حضرت محمدژﷺ جو مقدس شریعت لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے وہ خدا کی آخری اور دائمی شریعت ہے جو بالکل واضح، روشن کامل و اکمل ہے۔اور اس ایک نقطہ پر بھی کوئی الجھاؤباقی نہیں کہ عقیدہ ختم نبوتﷺ روح ایمان ہے اسکے بغیر ایمان نامکمل ہے،کفار ابتداء سے ہی عقیدہ ختم نبوتﷺ میں دراڑیں ڈالنے کی سازشوں میں مصروف عمل ہے اور ان گھناونی سازشوں کا سلسلہ دور نبوت میں سلیمہ کذاب سے ہی شروع ہواا ور فتنہ قادیانیت تک آن پہنچا۔قادیانی فتنہ، مسلمانوں کے ہاتھوں شکست خوردہ انگریزوں نے کذاب و احمق مرزا غلام احمد قادیانی کی زیرسرپرستی تشکیل دیا ۔ جو مسلسل نت نئے اوچھے ہتھکنڈوں سے اسلام اورانکی برگذیدہ ہستیوں پر وار کرنے کیلئے موقع کی جستجو میں رہتا ہے ،حالیہ کچھ عرصہ سے شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ اور انکا خاندان فتنہ قادیانیت کے نشانے پر ہے،سنگین ترین الزام تراشی کاسلسلہ جاری ہے کہ علامہ ؒ کے خاندان کا رحجان قادیانیت کی جانب رہا ہے ۔ قادیانیوں کے بے بنیاد الزامات کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے گزشتہ روز دابستان اقبال لاہورنے بریگیڈیر(ر) پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق کے خطبہ بعنوان ’’علامہ اقبال ؒ اور قادیانیت‘‘کا اہتمام کیا ،
جس میں دابستان اقبال کے روح رواں میاں اقبال صلاح الدین، باسط کوشال،نواب برکات محمود، ایس ایم رضوی، میاں ساجد علی، عنائیت علی، اقبال جنجوعہ، احمد پرویزاور طارق امین سمیت معروف ادبی ،صحافتی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
دابستان اقبالؒ ِ لاہور کا مختصر تعارف یہ ہے کہ موجودہ دور میں فکرِاقبال کی معنویت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لئے اقبال سے انتہائی عقیدت رکھنے والے کچھ دوستوں نے جنوری ۲۰۱۲ میں’’دابستانِ اقبال ‘‘کے نام سے یہ ادارہ قائم کیاتھا۔ جس میں معروف اساتذہ اقبالیات کی تعلیم ،فروغ اور تشہیر کیلئے طلبا کے ساتھ معانی اور مفاہیم کے امکانات اور عہد حاضر کے تقاضوں کیمطابق ان کی معنویت تلاش کرتے ہیں ۔جو طلباء میں انکی قابلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے یقینی طور پر ایک عملی اقدام ہے۔ دابستانِ اقبال کا بنیادی ہدف بھی یہی ہے کہ اپنی صورتحال کے ہر پہلو میں اقبال سے ایک مفصل رہنمائی لینے کا عمل جاری رکھا جائے اور اس عمل کو سوسائٹی کے بااثر افراد اور طبقات تک پھیلانے کی کوشش بھی ہو۔
’’علامہ اقبالؒ اور قادیانیت‘‘کے موضوع پر پُرمغز اور مدلل خطبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید الزمان نے ایسے رازوں سے پردہ فاش ،اور حقائق کو بے نقاب کیا جس کو جان کر فتنہ قادیانیت شرمندگی سے حواس باختہ ہوجائیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ قادنیوں کے خلاف علامہ اقبال کے نظریات انکے خطوط، مضامین ،تقاریر اور شاعری کے ذریعے واضح ہیں ، اپنے ایک خط میں علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ (مفہوم)’’ قادیانیت کی تحریک منافق ہے جو کافر سے زیادہ خطرناک ہے‘‘۔ اقبالؒ نے1902 سب سے پہلے قادیانیت پر وار کیا۔ 1902ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں انہوں نے مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ:
اے کہ بعداز تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک ۔۔۔بزم را روشن ز نور شمع عرفان کردہ
1903ء انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ’’فریاد امت‘‘ منعقدہ مارچ1903ء میں اقبال نے ایک نظم پڑھی جس کا دوسرا عنوان ا برگہربار تھا۔ اس میں انہوں نے یہ شعر پڑھا۔
مجھ کو انکار نہیں آمد مہدی سے مگر۔۔۔غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا
اقبال نے اس شعر کے ذریعے مرزا قادیانی کے اس دعوے کو رد کردیا کہ وہ مثل مسیح یا مثل محمد ہے۔
اقبال نے1916ء میں ایک بیان میں کہا: ’’جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے نبی کا قائل ہوجس کا انکار مستلزم کفر ہو تووہ خارج از اسلام ہوگا۔ اگر قادیانی جماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘ ۔فرماتے ہیں کہ
غدار وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن
انگریز سمجھتا ہے مسلماں کو گداگر
پنجاب کے ارباب نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومن پارینہ ہے کافر
آوازہ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے
مسکیں دلکم مائدہ دریں کشمکش اندر
علامہ اقبال نے 1935کے ایک انگریزی مضمون میں حکومت برطانیہ کو آئینی طریقے سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جو تجویز پیش کی تھی،جو الحمداللہ 1974میں سرخرو ہوئی اور یوں پاکستان میں قادیانیوں کو غیرمسلم اور مرتد قرار دیدیا گیا۔
لکھتا ہوں خون دل سے یہ الفاظ احمریں
بعد از رسول ہاشمیﷺ کوئی نبی نہیں
سید نذیر نیازی کے نام خط میں انہوں نے لکھا ’’ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں یعنی یہ کہ مجھے الہام و غیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کازب ہے اور واجب القتل مسیلمہ کذاب کو اسی بناء پر قتل کیا گیا تھا(انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار)‘‘
اِس موقعہ پر پروفیسر وحیدالزمان طارق نے شورش کشمیری کی کتاب ’’فیضانِ اقبال‘‘ سے کچھ حوالہ جات اوراقتباسات پیش کئے ۔’’ اور باتوں کے علاوہ ختمِ نبوت کا مطلب یہ ہے کہ روحانی زندگی میں جس کے انکار کی سزا جہنم ہے، ذاتی سند ختم ہوچکی ہے(لائٹ کے جواب میں)‘‘،’’انسانیت کے تمدنی تاریخ میں غالباً ختم نبوت کا تخیل سب سے انوکھا ہے اس کا صیح اندازہ مغرب اور ایشا کے موبدانہ تمدن کی تاریخ کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے ،موبدانہ تمدن میں زر تشتی، یہودی، نصرانی اور صابی تمام مذاہب شامل ہیں(قادیانیت اور اسلام، بہ جواب نہرو)‘‘،’’دینیاتی نقطہ نظر سے اس نظریے کو ہم یوں بیان کر سکتے ہیں ۔ اسلام کی اجتماعی اور سیاسی تنظیم میں محمدﷺ کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ،جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو۔جوشخص ایسے الہام کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے ‘‘،’’جب کوئی شخص ایسے ملحدانہ نظریوں کو رواج دیتا ہے، جس سے نظامِ اجتماعی خطرہ میں پڑ جاتا ہے تو ایک آزاد اسلامی ریاست پر اُس کا انسداد لازم ہوجاتا ہے (پنڈت نہرو کے جواب میں)‘‘،’’جہاں تک مجھے معلوم، بروز کا مسئلہ عجمی مسلمانوں کا ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے، میری رائے میں اس مسئلہ کی تاریخی تحقیق قادیانیت کا خاتمہ کرنے کے لئے کافی ہے(پروفیسر الیاس برنی کے نام)‘‘،’’قادیانی نظریہ ایک جدید نبوت کے اختراع سے قادیانی افکار کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ اس سے نبوتِ محمدیہ کے کامل و اکمل بد کی تفصیل بیان کی ۔ اسی سال قادیانیت کے متعلق پہلا بیان دیا، پیر کا دن تھا اور مئی کی چھ تاریخ(عبدالرشید طارق، ملفوظات)‘‘،’’مسلمان ان تحریکوں کے معاملہ میں زیادہ حساس ہیں جو ان کی وحدت کے لئے خطرناک ہوں۔ چناں چہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو لیکن اپنی بنا نئی نبوت پر رکھے اور اس کے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو بزعم خود کافر قرار دے ، مسلمان اسے سلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرتے ہیں۔ اسلامی وحدت ختمِ نبوت ہی سے استوار ہوتی ہے ۔ ‘‘۔
علامہ اقبال کا خط بہ نام نذیر نیازی میں لکھا ہے’’ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعدِ اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کا ذب ہے اور واجب القتل ۔ مسیلمہ کذاب کو اسی بنا پر قتل کیا گیا تھا۔‘‘جبکہ مولانہ مدنی کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’قادیانی نظریہ ایک جدید نبوت کے اختراع سے قادیانی افکار کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ اس سے نبوت محمدیہ کے کامل و اکمل ہونے کے انکار کی راہ کھلتی ہے‘‘،پنڈت جواہر لعل کے نام اپنے خط میں اقبال ؒ واضح طور پر لکھتے ہیں کہ’’ میں اس باب میں کوئی شک و شبہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ یہ احمدی، اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔ فرمایا’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘کے بعد اجرائے نبوت کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ۔ قادیانی اسلاف کی تحریروں کو محرف کر دیتے ہیں(خضر تمیمی ، ملفوظات)
فتنہ قادیانیت کے بارے میں علامہ اقبال کے ان واضح نظریات نے قادیانیوں کی کمر توڑ دی ، وہ اور تو کچھ نہ کر سکے لیکن اقبال کے ناخلف قادیانی بھتیجے شیخ اعجاز،جس کے اپنی بیوی بچے بھی کبھی قادیانیت کی طرف مائل نہ ہوئے، کے ذریعے علامہ اقبال کے خاندان کوقادیانی ثابت کرکے علامہ اقبال اور انکے خاندان کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ تا کہ اقبال کے افکار و نظریات متنازعہ ہو کر اپنی اہمیت کھو دیں ۔ اس سلسلے میں شیخ اعجاز ملعون نے ایک کتاب ’’مظلوم اقبال‘‘بھی تحریر کی جس کا مقصد اقبال کے خاندان کو قادیانی ثابت کرنا تھا لیکن قادیانی بھتیجے کے بھانجے اور ختم نبوت کے شیدائی خالد مظہر صوفی نے اپنے ماموں کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس سازش کو بے نقاب کر دیا ۔
علاوہ ازیں علامہ اقبال کے فرزندجاوید اقبال(مرحوم)نے بھی اپنی کتاب ’’زندہ اور ‘‘میں خاندانِ اقبال کے قادیانی ہونے کی تردید کی ہے ۔ خاندان اقبال سے ایک اور معتبر گواہی ناخلف بھتیجے شیخ اعجاز کے بہنوئی جو علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد کے داماد ہیں (ڈاکٹر نظیرصوفی )لکھتے ہیں کہ ’’یہ کہنا کہ علامہ کے خاندان کے کئی افراد نے مرزائیت قبول کر لی تھی ، سراسر جھوٹ ہے ، حضرت علامہ کے والد، والدہ، چچا،چچی، بہنیں اور بھائی اور انکی اولادیں سب ہی سنی مسلمان تھے اور ہیں ،سوائیے ایک بھیتجے کے جہ کہ ترقی کیلئے چودھری ظفر اللہ کے زیر اثر چھ بہن ،بھائیوں میں سے اکلوتا قادیانی بن گیا‘‘۔
صحبتش با عصر حاضر در گرفت۔۔حرف دین را از دو پیغمبر گرفت
آن ز ایران بود و این ہندی نژاد ۔۔آن ز حج بیگانہ و این از جہاد
تا جہاد و حج نماند از واجبات۔۔رفت جان از پیکر صوم و صات
روح چون رفت از صلوات واز صیام۔۔فرد ناہموار و ملت بی نظام
سینہ ہا از گرمی قرآن تھی۔۔از چینن مردان چہ امید بھی
تقریب کے اختتام بھی سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا گیا تھا ۔جس میں ڈاکٹر وحیدالزمان طارق کے حاضرین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے۔شرکاء نے نہایت اہم اور حساس موضوع پر تقریب کے اہتمام پر دابستان کی منتظم اعلیٰ کو خراج تحسین پیش کیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں