357

چترال کے پُرامن ماحول کے خلاف ایک ناکام سازش ۔۔۔۔۔۔۔مولانامحمدنقیب اللہ رازی

گزشتہ جمعہ کو چترال میں جوناقابلِ برداشت واقعہ رونما ہوا،اس پر تحقیقات جاری ہیں۔یہاں کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ چترال جیسے کٹر مذہبی اور مثالی پُرامن علاقے میں پہلی دفعہ کسی ملعون نے نبّوت کا مدّعی بنا۔اس پر جوعوامی ردّ عمل سامنے آیا وہ بھی کوئی نئی یاانہونی بات نہیں۔ایسے موقع پر عوام اوربالخصوص جذبات سے سرشار مسلمانوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ قانون کو حرکت میں لانے کے لئے اپنا ایمانی فریضہ خوش اسلوبی سے سرانجام دیں۔اور مجرم کو کیفرِکردار تک پہنچانے کے لئے ہر جائز حربہ روبہ عمل لائیں۔فی الوقت رونماہونے والے واقعے کے حوالے سے مجرم ملعون کو تختۂ دار تک چڑہانے کے لئے احتجاج کرنے والے سچے غیّور مسلمانوں کے جذبات کی ہم قدر کرتے ہیں۔ اور اسلام ان بے تیغ لڑنے والے سپاہیوں سے یہی توقع ہے کہ وہ آئندہ بھی اسلام اور اسلامی شعائر کی طرف کسی کو میلی آنکھ اُٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ ہمیں اسلام کے نام پر قربانی دینے سے قبل یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ فی الوقت اسلام ہمیں کس قسم کی قربانی دینے کی اجازت دیتا ہے؟کیونکہ محض اپنے جذبات پرعمل کرنے کا نام ہرگز اسلام نہیں،بلکہ جذبات پر قابو پاکر اسلام کے وقتی تقاضوں کے سامنے جھکنے کا نام اسلام ہے۔ہماری اسلامی روایت بھی یہی رہی ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ کئی جذباتی صحابۂ کرامؓ آنحضرت ﷺ کے سامنے تلوار اٹھایا کرتے تھے اور آپؐ انہیں مجرم کے قتل سے منع فرمایا کرتے تھے۔حضرت عمر بن خطابؓ کی اسلامی غیرت اور ایمانی جذبہ تو کسی سے پوشیدہ نہیں ،کئی مواقع میں اُنھوں نے آپ ﷺ کے روبرو تلوار اُٹھایا ،اور مجرم کو قتل کرنے کی اجازت چاہی،مگر آپ ﷺ نے منع فرمایا۔
اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ہمارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قانون جس چیز کا نام ہے اس کا احترام بہر حال سب پر لازم ہے۔چاہے وہ شرعی قانون ہو،یا ملکی یامعاشرتی وتہذیبی دستور پر مبنی کوئی ضابطہ ہو۔اس کی پاپندی لازمی ہوتی ہے۔ورنہ قانون ایسے جذبات کے خلاف خود گواہ بن جاتا ہے۔دوسرے ضابطوں کی مثالیں شاید کسی کی سمجھ میں نہ آسکیں گی،اس لئے صرف ایک شرعی قانون کی مثال پر اکتفاکرتاہوں۔کہ مثلاً خدانخواستہ کوئی شخص اپنے حرم میں کسی مشکوک آدمی کو دیکھے،ظاہر ہے کہ اس کے ایمانی جذبات خون بن کر اس کی آنکھوں سے ٹپکنے لگیں گے اور اس کی غیرت ایسے مجرم کو کبھی معاف کرنے کو تیار نہیں ہوسکتی۔جس کے نتیجے میں وہ مجرم کو قتل کرڈالے گا۔تو کیا اُس کے یہ جذبات پسندیدہ شمار کئے جائیں گے؟ اور کیا ایسا سچا مسلمان بھی شریعت کی رو سے قاتل اور واجب القتل قرار نہیں پاتا؟۔اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا،حالانکہ شریعت میں قانون نافذ کرنا الگ چیز ہے اور اس پر عمل کرنا الگ کام ہے۔اگر ہرکسی کو قانون نافذ کرنے کا اختیار دیا جائے تو اسلام میں عدالتوں اور قاضیوں کے فرائض اور وظائف کیا ہوں گے؟۔کیا اس سے ملک میں طوائف الملوکی کا راج نہیں ہوگا؟۔
یہی وجہ ہے کہ بسااوقات ہمارے ملک میں اسلام کے نام پر وہ کا م کئے جاتے ہیں جن سے خود اسلام شرمندہ ہوتا ہے۔مسلمان کی تعریف یہ بتائی گئی ہے کہ’’ اس کے ہاتھ اور زبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے‘‘۔اگر اسلامی جذبے سے سرشار ہوکر کسی مسلمان کو جانی ،مالی نقصان پہنچائیں،کسی کی عزّت کو خاک میں ملائیں ،اپنے وطن کے قومی املاک کو نقصان پہنچائیں،تو یہ جذبات اسلام کی کونسی خدمت پر صرف ہوئے؟۔کیا اس قسم کی حرکتوں کے علاوہ ہمارے پاس احتجاج کا کوئی شرعی طریقہ نہیں ہوتا؟،یایہ کہ ایسے موقع پر ہمیں کسی شرعی ضابطے کی پابندی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی؟۔اسی کو من چاہت زندگی کہتے ہیں،اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ہمیں اس پر کئی بار سوچنا چاہئے۔
چترال میں رونماہونے والے ملعونی واقعے سے متعلق یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ یہاں تین قسم کے فرقے موجود ہیں،اور تینوں نے اس ملعونی حرکت کی بھر پور مذمت کی ہے،اور مجرم کوقرار واقعی سزا دینے کی اپیل کی ہے۔اس لئے کہ اس ملعون نے سب کو چیلنج کیا ہے۔ پھر بھی یہ ایک آدمی کا ذاتی واقعہ ہے اس کا تعلق کسی فرقے سے ہونے کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ سارا فرقہ ایساکیا ہے۔چنانچہ بعض لوگوں نے اس کو مذہبی فرقہ واریت کا رنگ دینے کی ناکام کوششیں کیں،جو بہرلحاظ قابلِ مذمت ہے۔ورنہ دوسرے فرقے والوں کو بھی حق پہنچنا چاہئے تھا کہ وہ بھی چترال کے علاقے برینس کے گستاخِ رسولؐ ملعون کے واقعے پر اُس کے مذہبی لوگوں اور متعلقین کے خلاف احتجاج کرتے؟۔آخر ضرورت ہی کیا ہے کہ ہم ہر واقعے کو فرقہ واریت کی عینک سے ہی جائزہ لیں؟۔
تیسری اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ گستاخِ رسولؐ اور مدّعئ نبوّت میں فرق ہے۔گستاخی رسول ؐ کو شریعت قابلِ تلافی جرم قرار نہیں دیتا ،اور اس کوتوبہ کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی۔لیکن مدّعی نبوّت کا حکم شرعاً ایسا نہیں ،اس کو سزا دینے کے لئے الگ سے شرائط ہیں۔جس ملعون نے جامع مسجد چترال میں جو حرکت کی ہے اس کو اصطلاحاً گستاخأ رسولؐنہیں کہاجاتا ،بلکہ وہ مدّعئ نبوّت ہے۔دونوں میں شرعاً واصطلاحاً فرق ہے۔اگر چہ مدّعی نبوّت شریعت کی روسے زندیق ،کافراورواجب القتل ہے،مگر قانونی مراحل سے گزار کر اس کو یہ سزادی جاسکتی ہے۔
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ آج تک میڈیا میں اور سیاسی پروپیگنڈوں میں بھی یہ بات اُچھالی جاتی رہی تھی کہ دینی مدارس اور علماء فرقہ واریت کو ہوادے رہے ہیں اور دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتے ہیں ،انتہاپسندی کے علمبردار ہیں۔اس قسم کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔چترال کے حالیہ واقعے میں قیام امن کے حوالے سے علماء اور مدارس کا کرداران مخالفین کے منہ پر ایک طپانچہ ہے۔کیا اس واقعے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام ہی امن کا علمبردار ہے اور یہی علماء اور دینی مدارس ہی ہر قسم کی دہشت گردی اور بد امنی کے آگے سینہ سپر ہوکر آتے رہے ہیں۔تو کیا اب بھی ان لوگوں کے غلط پروپیگنڈوں پر کوئی یقین کرسکتا ہے؟کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ علماء اور دینی مدارس کے خلاف ہرزہ سرائی سے توبہ کرلیں؟۔ایسے لوگ اس سے بھی بڑھ کر کونسے واقعے کے منتظر ہیں جوان کی تسلی کے لئے کا فی ہو؟۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اس واقعے کو چترال کے پرُامن ماحول کے خلاف ایک سازش ہونے کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔چاہے وہ ملعون مدّعی کی صورت میں ہو،یا عوامی ہنگامہ ارائی کی صورت میں ۔یہ دونوں باتیں تحقیق طلب ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں