285

محمد جاوید حیات ’’ ایک پر گو شاعر سید صدام علی انداز‘‘

صدام علی انداز ’’انداز‘‘ تخلص رکھتا ہے ۔۔ایک نوجوان شاعر ہے بہت کم وقت میں شاعری کے تین مجموعے منظر میں لائے ۔۔محنتی نوجوان ہیں ۔۔اپنے فن سے محبت ہے ۔۔اس کو شکوہ رہا کہ میں اس کی شاعری پہ تبصیرہ نہیں کرتا ہوں ۔۔چترال میں جو معروف اساتذہ فن ہیں وہ جب کسی پہ لکھتے ہیں تو ہم جیسوں کی ہمت نہیں ہوتی کہ قلم اٹھائیں ۔۔۔شاعری ایک تخلیقی عمل ہے۔ بعض دفعہ اقبال جیسے لیجنڈ کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ شعر تخلیق کر رہا ہے ۔۔کہتا ہے میں شعر کے فن سے ناواقف ہوں درد تخلیق کر رہا ہوں ۔۔غالب کو شکوہ تھا کہ ’’مضامین غیب سے خود خیال میں ٓاتے ہیں ‘‘ ٹیگور سے کسی نے پوچھاِ ۔۔۔اتنے خوصورت گیت کیسے تخلیق کرتے ہو ۔۔کہا کہ میرے اندر ایک دکھی عورت ہے وہ جب درد سے چیختی ہے تو گیت بن جاتا ہے ۔۔۔تخلیق کار کوئی بے کار مرد نہیں ہوتا ۔۔جو خود تخلیق کار نہیں ہے وہ اسکو بے کار کہتا ہے ۔۔۔صدام علی انداز ایک تخلیق کار ہیں ۔۔اتنی جوانی میں اپنے فن سے اتنی محبت قابل رشک ہے ۔۔صدام علی انداز ۱۹۹۲ء کو تورکھو ریچ میں پیدا ہوئے ۔۔بی اے تک تعلیم حاصل کی ۔۔۲۰۰۵ء کو ریچ سے دروش آکر سکونت اختیار کی ۔۔در ادب پہ دستک دی شاعری کی دنیا میں قدم رکھا اور دروش جیسے ادب خیز دھرتی میں اس کی شاعری پنپنے لگی ۔۔پھر کتاب پہ کتاب آئی ۔۔۔صدام علی انداز سیدھی سادھی ہے ۔۔نازک جذبات کے لئے الفاظ ڈ ھونڈتا ہے ۔۔تخیل کبھی نیچے کی طرف اڑا ن بھرتا ہے کبھی اونچی اوڑان کرتا ہے ۔۔ہر طرح کی شاعری ہے مشکل ترین صنف غزل بھی ہیں۔۔ منظومات بھی ہیں ۔۔ابھی میرے سامنے ’’عقیدتو گمبوری ‘‘نام سے مجموعہ ہے ۔۔۵۳ صفحات کی چھوٹی سی کتاب ہے ۔۔۱۹ عدد حمد باری تعالیٰ ۱۱ عدد نعت شریف ہیں اسکو کس طرح کا مجموعہ کہا جائے ۔۔مجموعہ حمد یا نعت۔۔اس میں عقیدت ہے ۔۔نصیر اللہ منصور ،مولا نگاہ نگاہ ،پروفیسر مولانا محمد نقیب اللہ رازی نے اس کتاب پر تبصیرہ کیا ہے ۔۔انھوں نے صدام کے فن ،اس کی صلاحیت اور اس کے شعری محاسن پہ بات کی ہے ۔۔رازی صاحب لکھتے ہیں کہ انداز کی عمر نا پختہ ہے اور اس کی کوشش قابل رشک ہے ۔۔امید ہے ایندہ خوب لکھے گا ۔۔اسکی کو شش دوسرے جوانو ں کے لئے قابل تقلید ہے ۔۔صدام علی انداز سیدھا سادہ پیرائے میں لکھتے ہیں بہت بلند پروازی اگر نہیں تو تقعید بھی کوئی نہیں ۔۔دعائیہ انداز ہے خلوص ہے ۔۔دل کے نہان خانے سے عرش تک کا راستہ ہے ۔۔اور الفاظ لڑکھڑاتے اس راستے پہ سفر کرتے ہیں ۔۔عظیم تخلیق کار کے الفاظ بولتے ہیں ۔۔چھوٹے تخلیق کارکے الفاظ دھائی دیتے ہیں صدام کے الفاظ خاموش ہیںَ ۔۔ضرور ایک دن بولیں گے۔۔صدام علی انداز کایہ تیسرا مجموعہ عقیدت کا ایک مینارہ ہے جس کو چترال کے عظیم اہل قلم نے خاصے کی چیز کہا ہے ۔۔ صدام علی اندازکے الفاظ نیم ٹکسالی ہیں یہ مسلہ ہر کھوار شاعر کا ہے ۔۔جن کو اپنی زبان کی صحت کی پرواہ نہیں ۔۔مگر صدام کے خیال میں خلوص ہے ۔۔وہ ایک محنتی شاعر ہیں ۔۔جب خیال ذھن کی سکرین پہ نمودار ہوتا ہے تو وہ الفاظ ڈھونڈتا ہے ۔۔اس جدوجہد میں وہ کتنا کامیاب ہوتا ہے اس کا فیصلہ اس کا قاری کرے گا ۔۔اس کی حمدوں اور نعتوں میں واقعی عقیدت کے پھول ہیں ۔۔اللہ کے حضور کے دعائیہ کلمات ہیں اور حب رسول ﷺمیں اس کی آرزوویں ہیں ۔۔مدینے کو دیکھنے کے لئے اس کی تمنائیں تڑپتی ہیں ۔۔اس کی پہلے دو مجموعے دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔۔یہی جب چھپ کے آیا تو بھیج کے فرمایا اس پہ لکھو ۔۔میں نے اس پہ تیصیرہ کرنے والے عظیم لکھاریوں کی آرا سے آگے بڑھنے کی جرات نہیں کی ۔۔البتہ آرزو ہوئی کہ میں بھی کبھی صدام علی انداز بن جاؤں اور میرے حصے میں ’’ھاردیواشرو‘‘اور’’ شکست آرزو‘‘ آجایں۔۔۔۔۔؂؂

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں