315

روز افزوں انتخابی بخار۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے میں ابھی لَگ بھگ چار سو دِن باقی ہیں لیکن انتخابی تھرمامیٹر کا پارہ روز بروزچڑھتا ہی جا رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تھرمامیٹر توڑ کے باہر نکل جائے گا ۔ سبھی ’’شکاری‘‘ اپنی اپنی کمیں گاہوں سے نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔ ہر کسی کے ہاتھ میں دام ہم رنگِ زمیں ہے اور ہر کوئی زیادہ سے زیادہ شکار کا دعویدار ۔ تینوں بڑی جماعتوں کے سربراہان سیاسی جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک دوسرے پر الزامات کے تیر برسا رہے ہیں ۔
لیّہ میں وزیرِاعظم نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کپتان کے جلسوں کو ’’جلسیاں‘‘ قرار دیا ۔ اُنہوں نے خصوصاََ کپتان کے اسلام آباد کے جلسے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کُرسیاں خالی تھیں اور اُن کے ایک جلسے میں کپتان کی دَس جلسیاں سما سکتی ہیں۔ یوں تو میاں صاحب سخت زبان سے ہمیشہ گریز ہی کرتے ہیں لیکن لیّہ کے جلسے میں اُنہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بہت کچھ کہہ ڈالا ۔ اُنہوں نے کپتان کا نام لیے بغیر یہ کہا کہ وہ نیا پاکستان بنانے آئے تھے لیکن خیبرپختونخوا کی حالت بھی بگاڑ کے رکھ دی ۔ اُنہوں نے کہا ’’سو گیدڑ بھی اکٹھے ہو جائیں تو شیر کھڑا ہی رہتا ہے ‘‘۔ میاں صاحب کی یہ زبان اور لہجہ سونامیوں کو پسند نہیں آیا ، اسی لیے اُنہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دراصل یہ ڈان لیکس کے معاملے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹویٹ کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ بحرانوں کے پالے اور جلاوطنی کی بھٹی سے نکالے میاں نوازشریف کبھی بوکھلاہٹ یا خوف کا شکار نہیں ہوتے ، البتہ یہ ضرور ہوا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر اپوزیشن نے بغلیں ضرور بجائیں اور تقریباََساری اپوزیشن نے میاں نوازشریف کو ہی موردِالزام ٹھہرایا ۔ جس سے کم از کم یہ تو پتہ چل گیا کہ ہماری اپوزیشن کو ’’بی بی جمہوریت‘‘ سے کتنا پیار ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹویٹ کو نامناسب قرار دیا جاتا لیکن اپوزیشن نے سارا الزام میاں نوازشریف پر دھر دیاجس پر میاں صاحب کا غصّے میں آنا فطری اَمر تھاجس کا اظہار لیّہ کے جلسے میں ہوا ۔
ڈان لیکس سے پہلے پاناما لیکس پر اپوزیشن نے خوب ہنگامہ کیا اورسپریم کورٹ کے بنچ کے فیصلے کو اِس لحاظ سے مسترد کر دیا کہ فیصلے کے مطابق بنائی جانے والی جے آئی ٹی کو تسلیم نہ کیا ۔بہانہ یہ بنایا کہ وزیرِاعظم اپنے عہدے پر رہتے ہوئے جے آئی ٹی پر اثر انداز ہوں گے اِس لیے اُنہیں مستعفی ہونا چاہیے ۔ اگر اپوزیشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں تھا تو پھر بنچ نے تو اپنے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ وزیرِاعظم مستعفی ہوں ۔گویا سپریم کورٹ سے بھی سپریم عدالت کورٹ سے باہر سجائی گئی جس نے وزیرِاعظم کے استعفے کا مطالبہ کر دیا لیکن بھلا کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے لگ بھگ دوگنے ووٹ لے کر وزیرِاعظم منتخب ہونے والے میاں نوازشریف استعفےٰ کیوں دیتے ۔ جب آئین و قانون اُنہیں اپنی مدت پوری کرنے کا حق دیتا ہے اور سپریم کورٹ بھی اُنہیں مستعفی ہونے کے لیے نہیں کہتا تو پھر استعفے کا مطالبہ جہ معنی دارد ۔ دراصل اپوزیشن نے دو معزز جسٹس صاحبان کے اختلافی نوٹ کا بہانہ بنا کر ہنگامہ بپا کیاحالانکہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے فیصلے پر پانچوں معزز جسٹس صاحبان کے دستخط تھے اور کسی بھی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھنا ایک عام سی بات ہے ۔ فیصلہ یا تو متفقہ ہوتا ہے یا پھر اکثریتی لیکن کپتان نے اکثریتی فیصلے کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اختلافی نوٹ ہی کو اصل فیصلہ بنا دیا ۔ اب عمران خاں جگہ جگہ اِسی اختلافی نوٹ کو بنیاد بنا کر میاں نوازشریف سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ دراصل سیاسی جماعتیں آمدہ انتخابات کی تیاریوں میں ہیں اور ایک پنتھ ، دو کاج کے مصداق اگر وزیرِاعظم کا استعفےٰ بھی ہاتھ آ جائے تو پھر پانچوں گھی میں۔
ڈان لیکس پر آئی ایس پی آر کا ٹویٹ اپوزیشن کے دِل کا سرور بن گیا اور شور یہ اُٹھا کہ سول اور فوجی قیادت میں بڑی دوریاں ہیں ، وہ ایک صفحے پر نہیں اِس لیے اب امپائر کی انگلی کھڑی ’’ہووے ای ہووے‘‘۔ دروغ بَر گردنِ راوی لال حویلی والے صاحب تو اب شرطیں بھی باندھتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر اب کی بار اُن کی پیشین گوئی غلط ثابت ہوئی تو جو چور کی سزا ، وہ اُن کی ۔ ہم تو شیخ صاحب کی پیشین گوئیوں کے پہلے ہی سے قائل ہیں اسی لیے اُنہیں بار بار مشورہ دیتے رہتے ہیں کہ وہ فال نکالنے والا طوطا لے کر لال حویلی کے باہر فُٹ پاتھ پر ’’پھَٹہ‘‘ لگا کر بیٹھ جائیں ، کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں لیکن شیخ صاحب کہتے ہیں کہ اگر وہ پھَٹے پر بیٹھ گئے تو پھر ہر روز کسی نہ کسی نیوز چینل پر بیٹھنے کا استحقاق کھو دیں گے ۔ ویسے یو ٹرن کے شیخ صاحب بھی ماہر ہیں اور غالباََ کپتان صاحب نے یہ فَن اُنہی سے سیکھا ہے ۔ یہ الگ بات کہ کپتان صاحب یہ کہتے ہوئے پائے گئے ’’میں نے تو کبھی یو ٹرن لیا ہی نہیں ‘‘۔وہ اگر کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے لیکن پھر بھی اگر کسی کو شک ہے تو انتہائی محترم امیرِ جماعتِ اسلامی سراج الحق سے تصدیق کروائی جا سکتی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اگر عمران خاں نے 10 ارب والی بات کی ہے تو ٹھیک ہی کی ہو گی ۔ اور یہ جو مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ کسی بھی شاہراہ پر یو ٹرن کا بورڈ لگانے کی بجائے عمران خاں کی تصویر لگا دی جائے تو لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے ، یہ تو دراصل اُنہوں نے اپنا خیبرپختونخوا کی حکومت ہاتھ سے نکل جانے کا غصّہ نکالا تھا حالانکہ اُنہیں یہ غصّہ میاں نوازشریف پر آنا چاہیے جنہوں نے اُن کی بات نہیں مانی اور خیبرپختونخوا کی حکومت ہاتھ آتے آتے رہ گئی ۔
اُدھر زرداری صاحب بھی ایک دفعہ پھر میدان میں ہیں ۔ محترمہ بینظیر کی شہادت پر اُنہوں نے بَروقت ’’پاکستان کھَپے‘‘ کا نعرہ لگایا اور اِس جذباتی ماحول میں وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن جب قوم کو پتہ چلا کہ پاکستان کھَپے کا نعرہ دراصل اُسے بیوقوف بنانے کے لیے لگایا گیا تھا اور زرداری کا اصل مقصد لوٹ مار تھا ، تو پھر ردِعمل بھی شدید آیا اور پیپلز پارٹی دیہی سندھ تک محدود ہو گئی ۔ زرداری نے بھٹو کے جیالوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو ’’بھٹو‘‘ بنا دیا لیکن یہ چال بھی بُری طرح ناکام ہو گئی ۔ اب دونوں باپ بیٹا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن گوہرِ مقصود ہاتھ آنے کا دور دور تک امکان نہیں ۔
آمدہ الیکشن پر سب سے زبردست تبصرہ جنرل پرویز مشرف کا ہے جنہوں نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سندھ اور نوازلیگ پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے کہ کپتان صاحب سے خیبرپختونخوا بھی چھِن جائے اور وہاں بھی نوازلیگ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے اِس لیے عمران خاں کو چاہیے کہ وہ اُن ( پرویز مشرف) کے ساتھ مِل جائے۔پرویز مشرف کا یہ مشورہ تو بہت صائب ہے ۔ اب پتہ نہیں کپتان اِس پر غور کرتے ہیں یا نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں