360

چترال ریجنل یونیورسٹی ۔۔۔۔۔ سماجی کارکن عنایتاللہ اسیر

اس عظیم منصوبے کو عدالتی چکروں میں ڈال کر ن لیگ کی حکومت کے اختتام تک لے جانا کسی طرح سے بھی چترال کے لاکھوں باشندوں کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
لہٰذا Admanistration اور Education کو الگ الگ تناظر میں دیکھ کر فیصلہ کرنا ہی اس میگا پراجیکٹ کے آغاز کے لئے ضروری ہے۔ڈاکٹر اسماعیل ولی چترال کے نامور مفکر ، انگریزی دان ، مدبر اور مختلف شعبوں میں تحقیق و تجسس اور رہنمائی کی پوزیشن میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں ۔اور اس ادارے کو بین الاقوامی ، ریجنل اور علاقائی سطع پر علمی ادارہ بنا کر چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔مگر کیا پراجیکٹ لیڈر کے طور پر صوبائی اور مرکزی حکومت کے بے تاج بادشاہوں ، سیکریٹریٹ ، ڈائریکٹوریٹ ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریٹس کے علاوہ ایکسیئن صاحبان ، انجنیئرز ، اورسیئرز کے کمیشن زدہ ہنرمندوں کے ساتھ چلنا اس کے لئے ممکن ہو گا ؟
حقیقت پسندانہ ، ہمدردانہ ، مخلصانہ اور چترال کے مفاد میں میری ناقص رائے میں ڈاکٹر بادشاہ منیر اور ڈاکٹر اسماعیل ولی کے درمیان مفاہمت اور صلح کا راستہ نکال کر عدالتی چارہ جوئی کے راستے سے اجتناب ہی چترال کے ساتھ ان دونوں کی محبت کا ثبوت ہو گا۔
عدالتی چارہ جوئی اس منصوبے کو لمبی مدت تک پیچھے کرنے کا سبب ہو گا ۔جس سے بہت بڑے علاقائی ، قومی اور علمی نقصان تو ہو سکتا ہے ۔مگر فائدہ کسی فریق کو نہیں ہو گا ۔ بلکہ دونوں کی پوزیشن متنازعہ ہو کر نقصان کا سبب ہو گا۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آپس میں مفاہمت کا راستہ قومی مفاد میں اختیار کر کے اس منصوبے سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین تعلیم اور اس پراجیکٹ سے وابستہ تمام نام جو ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں زیر بحث رہے ہیں ان پر مشتمل ایک پراجیکٹ کمیٹی اتفاق رائے سے بنا کر اس کام کا آغاز کیا جائے۔چترال کے سب سے پہلے PHD کی سند حاصل کرنے والے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب اور جناب شیر ولی خان اسیر صاحب اس پراجیکٹ کے سلسلے میں بہت ہی معاون کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس پراجیکٹ کے ریجنل اہمیت اور مستقبل میں اس کے اہم کردار پر پروفیسر شمس النظر صاحب بہتر رہنمائی فرما سکتے ہیں۔ڈاکٹر اسماعیل ولی صاحب چترال کے علم و دانش کے چراغ کے طور پر کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔لہٰذا مخلصانہ مشورہ قومی مفاد میں یہی ہے کہ مفاہمت کا راستہ ہی سب کے لئے باعزت راہیں کھولنے کا ذریعہ اور قومی مفاد میں ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں