235

آر ایچ سی کوغذی محکمۂ صحت کی عدم توجہی کا شکار…..نورولی شاہ انور کجو

R.H.Cکوغذی جو گاؤں راغ سے لیکر برنس تک ایک بہت ہی بڑے علاقے کا واحد ہسپتال ہونے کے ساتھ بھی محکمۂ صحت چترال کے عدم توجہی کا شکار ہے۔کڑوروں روپے سے تعمیر شدہ یہ انسانی شفاخانہ ایک کھنڈر کی شکل اختیار کر چکی ہے۔جس میں لاکھوں روپے کی جدید مشینری بغیر استعمال کے پرانے ہو چکے ہیں۔یہ جدید مشینری اور آلات اپنی اوپر سے مٹی اٹھوانے اور خود کو انسانی ضروریات میں لانے کے لئے زبان حال سے محکمے کے ذمہ داروں کو کئی سالوں سے پکار رہی ہیں۔جہان تک اس شفاخانے میں انسانی مسیحاؤں اور دوسرے کارندوں کا سوال ہے۔دور دراز سے خدمت کی جذبے سے آئے ہوئے نوجوان ڈاکٹرز صاحبان اور دوسرے عملہ بیٹھے بیٹھے اکتا گئے ہیں۔اور ہسپتال آنے والے ہر مریض اور اس کے رشتہ داروں سے نہایت مودبانہ انداز میں کہہ دیتے ہیں۔کہ ہم اپنے تنگدستی اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے آپ کی کچھ خدمت نہیں کر سکتے۔کیونکہ ہسپتال میں انسانی جان بچانے والے ادویات تو درکنار پلاسٹک کی سیرنچ اور کپڑے کی پٹی تک دستیاب نہیں۔وادی سوات سے تشریف لائے ہوئے خدمت کی جذبے سے سرشاریہ نوجوان ڈاکٹرز اکثر اپنی جیب سے خرچ کرکے مریضوں کی ضروریات پورا کرتے ہیں۔مزکورہ ہسپتال کے انچارچ ڈاکٹر روزانہ DHOصاحب اور دوسرے ذمہ داروں کو ضروری ادویات کی فراہمی کا لسٹ بیجھتے رہتے ہیں ،لیکن کوئی اس لاوارث ہسپتال کو پیرسٹامول کا ڈبہ یا پلاسٹک کا سیرنچ دینے کو تیار نہیں۔یہی وجہ ہے۔کہ ڈاکٹر صاحبان رات کے وقت ایمرجنسی میں آنے والی مریضوں کی سہولت کے لئے میڈیکل سٹور والے کی دکان کا چابی اپنے پاس رکھنے پر مجبور ہوتی ہیں۔تاکہ رات کو آنے والے مریضوں کے لئے بھی اس دکان سے دوائی لے کر لگایا اور دیا جاسکے۔
جب کسی مریض کو دن اور رات کے وقت مزکورہ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا جاتا ہے۔تو اپنے آنے سے پیشمان نہایت مایوسی سے واپس جانا ہوتا ہے۔کیونکہ اس پنجرہ نما ایمرجنسی وارڈ کا سائز 8×8اور صرف ایک مریض کے لئے بوسیدہ بستروں پر مشتمل بیڈ، ایک چھوٹا سالکڑی کا بینج ساتھ ہی ٹوٹے پھوٹے فرش پر پڑا ہو اگتے کا ڈسٹبین نظر آئے گی۔وارڈ سے متعلقہ کمرے میں ڈاکٹر صاحبان اور ہسپتال کا عملہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔لیکن۔۔۔خالی۔۔۔ہاتھ۔مریض کے حال پر افسوس کرنے کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔مہمان ڈاکٹرز ہر آنے والوں سے التجا کرتے ہیں۔کہ خدا را ہسپتال کے لئے آواز ا ٹھاؤ۔کیونکہ اس ہسپتال میں عوام کے لئے ایک گولی یا ایک شربت تک موجود نہیں۔کیا اس علاقے کے عوام میں شغور نہیں اور عوام کے منتخب نمائندوں کے منہ میں زبان نہیں۔ندامت اور لاپرواہی کا پسینہ پونچنے کے سوا ھمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔یہ بھی حقیقت ہے۔کہ ہمارے سیاسی نمائندوں میں حق کے لئے آواز اٹھانے کا حوصلہ ہی نہیں۔
مجھے تو دور دراز علاقے سے خدمت کی جذبے سے آئے ہوئے ان نوجوان ڈاکٹرز پر ترس آتا ہے۔مبادا کہ وہ اس خالی شفاخانے میں رہ کر اپریشن وغیر ہ کرنا تو درکنار مختلف بیماریوں کے لئے ادویات کا نام بھی بھول نہ جائیں۔اس لئے تحریر ھٰذا کی توسط سے ایک شہری کا رول آدا کرتے ہوئے محکمہ صحت کے ذمہ داروں اور صوبے میں ہسپتالوں کی حالات بہترین کرنے کی دعویدار P.T.Iکی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں۔کہ خدا را علاقے کے عوام پر اگر رخم نہیں کھاتے ۔ تو کم از کم ان نوجوان ڈاکٹروں پر ترس کھا تے ہوئے ان کو کسی ایسے ہسپتال ٹرانسفر کریں جہاں وہ عوام کی خدمت کر سکیں۔اور خدمت خلق کے ساتھ ساتھ اپنا پریکٹس بھی بحال رکھ سکیں۔بصورت دیگر یہ بیچارے ڈاکٹر صاحبان اپنے پیشہ ورانہ صلاحیت کو ہی بھول جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں