208

دروش گرلز ڈگری کالج کی ناقص تعمیر کام نوٹس لیا جائے۔ قاری نظام الدین، مولانا رحمت غازی

دروش(نمائندہ ) دروش کے معروف سیاسی سماجی و مذہبی شخصیت،ایکشن کمیٹی دروش کے صدر قاری نظام الدین و مولانا رحمت غازی نے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج دروش پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اے این پی اور پی پی پی کی مخلوط صوبائی حکومت میں دروش کی درینہ مطالبہ گرلز ڈگری کالج دروش کیلئے منظور کر کے شاہنگار کے مقام پر کالج پر تعمیراتی کام شروع کیا گیا تھا۔اے این پی اور پی پی پی کی مخلوط حکومت مدت ختم ہوئی تو پی ٹی ائی اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت وجود میں آئی تو یہ اہم منصوبہ بد قسمتی سے بے توجہ کا شکار رہا۔اس کے بعد محکمے اور ٹھیکیداروں کی اپنے مرضیاں چلنے لگی۔مین روڈ سے اوٹ اور انکھوں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے آج تک کسی سرکاری یا صوبائی حکومت کا زمہ دار بندہ نے اس کالج کا دورہ نہیں کیا۔اُنہوں نے کہا کہ کالج میں متعدد ٹھیکہ دار کام کرتے ہیں۔ان میں سے اکثر ایکسین کے قریبی عزیز اور سیاسی لوگ ہیں۔اس وجہ سے ٹھیکیداروں کے دونوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ایڈ منسٹریشن بلاک اور تین منزلہ کلاس رومز تیاری کی آخری مراحل میں ہیں۔جبکہ کوالٹی اور کوانٹٹی کے لحاظ سے انتہائی ناقص ہیں جو کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔جس میں کالج ہذا کے بچیوں اور اسٹاف وغیرہ کا ملبے تلے دب جانے کا بھی امکان ہیں۔اگر بروقت کاروائی نہ کی گئی تو کسی بھی وقت یہ عمارت گر سکتی ہے۔خاص کر کالج ہذا کے ہاسٹل کو انتہائی نا مناسب اور غیر معیاری بنایا گیا ہے۔ہاسٹل ہذا میں جو عمارتی لکڑی استعمال کی گئی ہیں وہ عمارتی لکڑی مقامی لوگ بھی اپنے مال مویشی خانے میں بھی استعمال نہیں کرتے ہیں،اصل دیار کے بجائے دیار کے وہ اقسام استعمال کیے گئے ہیں جن کو مقامی زبان میں (پتوپر،چیژون) کہا جاتا ہے۔لکڑی کے ایسے کاریگر سے کام لیا گیا ہے جو ابھی سے ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔چھت کے سیلنگ الماری وغیرہ اگر کوئی زمہ دار بندہ چیک کریں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائیں۔لہذا صوبائی و مرکزی حکومت ،چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا،صوبائی و وفاقی تفتیشی اداروں سے گذارش ہے کہ سی اینڈ ڈبلیو چترال اور ٹھیکہ داراں کی ملی بھگت کو بے نقاب کیا جائے اور ٹھیکہ داروں کو آخری پے منٹ سے روکا جائے اور قومی خزانے کو وسیع پیمانے پر خورد برد سے بچایا جائے۔کسی مصدقہ ادارے سے کلینرنس کے بعد پے منٹ کیا جائے۔بصورت دیگر کالج ہذا کی عمارت کا معیار تسلی بخش نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں