253

 جمہوریت زبان دیتا ہے لگام نہیں۔۔۔۔ شیر جہان ساحلؔ

جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے سابق امریکی صدر ابراہم لنکن یوں رقمطراز ہے کہ ” جمہوریت لوگوں کی حکومت، لوگوں کی طرف سے اور لوگوں کے لئے” کیونکہ جمہوریت سے پہلے جتنے بھی نظام دنیا میں رائج تھے جن میں فردی آزادی کا تصور نہیں ملتا ہے اور انسانی حقوق کے واضح اصول موجود نہیں تھے اسی لئے جمہوریت کو بہترین اور مقبول ترین طرز حکومت کے طور پر پوری دنیا میں اسلئِے اپنایا جاتا ہے کہ اس میں انسانی حقوق کی پامالی کے کوئی کنجائش موجود نہیں ہے اور ظلم بربریت کے خلاف آواز اٹھانے اور حقوق العباد کی تحفظ کے واضح اصول موجود ہیں اور اگر کسی معاشرے میں حقیقی جمہوریت موجود ہو تو خوشحالی اور ترقی اس معاشرے کی پہچان بن جاتی ہیں۔ چونکہ پاکستان تیسری دنیا کا ترقی پذیر ملک ہے اور تیسری دنیا کے جو مسائل ہیں ان میں جمہوریت کا فقدان اولین مسلہ ہے اور اکثر دانشواروں کا یہی خیال ہے کہ جب تک تیسری دنیا میں حقیقی جمہوریت نہیں آئے گی خوشحالی اور ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ روز اول سے ہی مملکت خداداد کو جمہوریت کا مسلہ رہا ہے اور کئی بار آمریت کی مشکل ترین دوروں کا سامنا کرنے کے بعد بلاآخر جمہوریت کی پٹڑی پر چل پڑی ہے اور کسی حد تک  جمہور جمہوری حقوق بھی حصول کرچکے ہیں جن میں اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا، حکومت وقت پر تنقید کرنا میڈنا میں رائِے دینا وغیرہ شامل ہیں۔ مگر آواز اٹھانا، تنقید کرنا اور میڈیا کا استعمال تو جمہور کو دیکھ کر کرنا ہے کہ کب، کس پر اور کیسا تنقید کیا جائے یا آواز اٹھایا جائے۔

پچھلے دنوں تحریک انصاف دورش کے پانچ یونین کونسلوں کے اکابرین کا ایک اجلاس جناب فیصل صلاح الدین کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں ضلع ناظم چترال حاجی مغرت شاہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور الزام یہ لگایا گیا کہ”” موصوف صوبائی حکومت کے کاموں کو اپنے حصے میں ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جو کہ غیر اخلاقی فعل ہے اور جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیان ہے کہ چترال میں ترقیاتی کامون کا سہرا صوبائی حکومت کے سر ہے جن کے لئے ایم۔پی۔اے فوزیہ کی قیادت میں انصاف ٹائیگرز نے کوشسیں کیں۔ لیکن بدقسمتی سے ضلع ناظم دو سال گذرنے کے باوجود کوئی کارکردگی نہیں دیکھا سکے۔ اور اب تحریک انصاف کے کاموں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر سستی شہرت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں””

اس پریس کانفرنس یا اجلاس کو حقیقت کی نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تیسری دنیا میں لاعلمی اب بھی ایک اہم مسلہ ہے اور لوگ موقع شناسی سے اب بھی کوسوں دور ہیں۔ وہ یوں کہ اس اجلاس کی سربراہی کرنے والے صاحب کو یہ معلوم ہونا چائے کہ ضلع ناظم کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور صوبے میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی کولیشن حکومت ہے اور جو کام ہو رہے ہیں اس میں دونوں پارٹیون کی مشترکہ رضامندی شامل ہوتا ہے اور رہی بات کچھ نہ کرنے کی تو بھی یہ تحریک انصاف ہی کا قصور ہے کہ وہ اب تک بلدیاتی نظام کو مکمل طور پر لاگو نہ کرسکا اور نہ ہی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کر سکا جس کا نعرہ لگا کر اقیدار حاصل کیا تھا۔ اور رہی بات کارکردگی کی!! تو یہ سب کو معلوم ہے کہ ضلعی حکومتوں کی پورے صوبے میں کیا کارکردگی ہے اور اس میں چترال کی ضلعی حکومت کس صف میں کھڑی ہے۔  بہر حال یہ موضوع بحث کا حصہ نہیں ہے۔

ایک بات واضح ہے کہ اس اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کو سیاسی بوکھلاہٹ کہیں یا پھر احماقانہ حرکت!! مگر لاعلمی ہر صورت میں کارفرما ہے۔ کیونکہ جمہوریت میں بولنے کی آذادی ہے، تنقید کرنے کی بھی آذادی ہے پر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ بندہ کچھ بھی بولے اور پریس ریلیز جاری کرے جس کا حقیقت سے دور تک کوئی واسطہ نہ ہو۔ اسی لئے واٹسن چرچل نے نازی اخبارون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت بولنے کے لئے زبان دیتا ہے لگام نہیں۔ اور یہ ہر اس شخص کو سمجھنا چائیے کہ زبان استعمال کرتے وقت  لگام اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی اور کو لگام دینے کا موقع نہ ملے۔ اور تنقید کو اگر چترالی طرز نظر سے دیکھا جائے تو یہ بھیڑ اور بھیڑیا کی وہ کہانی ہے جس میں وجہ کوئی بھی ہو بھیڑے نے بھیڑ پر حملہ کرنا ہے۔  جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں