270

پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔۔۔۔ایم سرورصدیقی

OOO جھوٹ ، مکرفریب ، لالچ ،دھوکہ اور گناہ انسان کی شرست میں شامل ہے کئی انسان ہو کر بھی خدا بننے کے خبط میں مبتلا تھے کچھ آج بھی خو د کو زمین کا خدا سمجھتے ہیں اس کے باوجود ہربچے کی پیدائش اس بات کا برملا اعلان ہے کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ہمارے آس پاس قدم قدم پر اللہ کی ظاہر نشانیاں موجودہیں سوچ و فکرکے در بھی کھلے ہیں نعمتیں ہیں اس کا حساب ہے نہ شمار اس کے باوجود کسی کو مطلق احساس تک نہیں عام آدمی پر کیا بیت رہی ہے اس حال مست مال مست بے نیازی کو کیا نام دیجئے لیکن اس کو خود فریبی سے تعبیر بھی کیا جا سکتاہے شاید اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ ان تمام نعمتوں پر صرف انہی کا حق ہے۔مال و دولت ، وسائل کی بہتات،لاکھوں،کروڑوں کی پراپرٹی ،بینک بیلنس اوراچھے حالات ان کا کوئی کمال ہے جو قدرت انہیں اس قدر نواز رہی ہے سچ جانےئے! یہ سب کچھ امتحان بھی ہو سکتاہے پاکستان میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں پاکستان نصف صدی سے جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوں تک محدودہوکر رہ گئے ہیں یہی لوگ اس وقت پاکستانیوں کی تقدیرکے مالک بنے ہوئے ہیں۔اپنے دلوں کو خواہشات کا قبرستان بنانے والوں کیلئے لمح�ۂ فکریہ ہے۔پاکستان میں غربت کی بناء پر خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ حکومت، سماجی تنظیموں اور صاحبِ ثروت حضرات کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے اب تو فاقوں سے تنگ آکر والدین میں اپنے بچوں کو قتل کرنے کا رحجان پیداہورہاہے حالانکہ ہربچے کی پیدائش اس بات کا برملا اعلان ہے کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ۔ ایک عالمی ادارے نے دل ہلا دینے والی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہوتاجارہاہے75% سے زائد شہری خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کررہے ہیں زندگی کی ہر قسم کی بنیادی سہولتوں سے محروم غربت کے مارے اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے پر مجبور ہیں سینکڑوں لوگ اپنے گردے بیچ چکے ہیں جبکہ اب گردوں کی خرید و فروخت نے ا یک کاروبار کی صورت اختیارکرلی ہے جس میں بعض ڈاکٹر بھی ملوث ہیں۔ یہ بھی کہاجارہاہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جسم فروشی میں خوفناک اضافہ ہوتا جارہاہے یہ سب غربت جیسی لعنت کی وجہ سے ایسا ہورہاہے وسائل کی کمی،طبقاتی پریشانی اورذہنی الجھاؤ کے باعث بھی عام خاندان کے نوجوان منشیات کی طرف راغب ہوکر اپنے والدین کو مزید غربت میں دھکیل رہے ہیں مسائل کی وجہ سے ہم دل گرفتہ ،پریشان اور مایوس رہتے ہیں سوچنے کیلئے یہی کافی نہیں کہ ہربچے کی پیدائش اس بات کا برملا اعلان ہے کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔لوگ مایوس تو اس بات پر بھی ہورہے ہیں کہ میاں نوازشریف عام آدمی کیلئے انقلابی اقدامات کیوں نہیں کررہے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ معاشی چکی میں پسے عوام موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیں حکمران عوام کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں تیار کریں جس سے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف مل سکے صاحبِ اقتدارطبقہ کی بات نہ ہی کریں ان کو تو کچھ فکر ہی نہیں کسی معاملے میں کوئی منصوبہ بندی ہے نہ کوئی حکمتِ عملی ۔ گوداموں میں پڑے اناج کو کیڑے پڑ جاتے ہیں لیکن بھوک سے مرتے لوگوں کو ایک دانہ بھی فراہم کر نا گناہ سمجھ لیا گیاماضی اور حال کی حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے انہوں نے ہمیشہ سارا زور گا گے گی پر لگایاہے جو جتنے پر جوش اندازمیں ایسے نعرے لگاتاہے اتنا ہی کامیاب سمجھا جاتاہے۔غربت سے عاجز مائیں اپنے بچوں کے گلے کاٹنے پرمجبورہو جائیں یا نئے کپڑے مانگنے پر باپ اپنی لاڈلی بیٹی کوقتل کرڈالے تو سوچنا چاہیے ایسا کیوں ہورہاہے؟ حیف ہے حکومت غربت ختم کرنے کی بجائے غریب ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ حالانکہ ۔ہربچے کی پیدائش اس بات کا برملا اعلان ہے کہ پروردِگار ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ہمارے آس پاس قدم قدم پر اللہ کی ظاہر نشانیاں بھی موجودہیں لیکن ہم ان کی طرف توجہ نہیں دیتے شاید اسی لئے انسان خسارے میں ہے۔ہم مسلمان ہوکر بھی سوچتے نہیں، خدا کی قدرت اور حکمت پربھی غور کر نا پسند نہیں کرتے۔ دولت کی محبت نے ہمیں برباد کرکے رکھ دیاہے احساس ،مروت، بھائی چارہ،اخلاقی اقدار دن بہ دن ناپید ہوتی جارہی ہیں اورہم ایک دوسرے کے حقوق سے بھی غافل ہو چکے ہیں اس کے باوجود اللہ کی ذات ِ بابرکات ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوئی تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتاہے وہ انسان کو فخرِ انسانیت کی معراج پر دیکھنا چاہتاہے اور ہم ایسے دنیا دار ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں