245

آل پاکستان مسلم لیگ چترال کا مستقبل ۔۔۔۔۔کریم اللہ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق صدر پاکستان جرنیل (ر) پرویز مشرف کو چترال میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ جس نے اپنے دور اقتدار کے دوران کئی مرتبہ چترال کا دورہ کیا یہاں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے اور سب سے بڑھ کر مشرف صاحب نے  بھٹو شہید کے نقش وقدم پر چل کر اہالیان چترال کی عزت نفس کا لاج رکھا مشرف صاحب جب بھی چترال کا دورہ کیا یہاں کی موسیقی کی دھنوں میں چترالیوں کے ساتھ مل کر رقص کرتے رہے نہ صرف اپنے دور اقتدار کے دوران مشرف نے چترالیوں کو اچھے ناموں سے یاد کیا بلکہ  اقتدار سے فارع ہونے کے بعد متعدد بار اپنے ٹی وی انٹرویوز اور بیانات میں چترالی ثقافت وادب کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا ایک مرتبہ انہوں نے کسی یورپی ملک کے دورے میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگرکسی کو تہذیب سیکھنا ہے تو وہ چترال جاکر سیکھ لیں۔ یہی وہ طرز عمل ہے جس کی وجہ سے چترال کے لوگ بھی مشرف کے لئے دل وجان نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جب مشرف کے خلاف دوہزار تیرہ کے بعد مشکل وقت آیا تو چترال سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے مشرف کی جگہ خود کو ٹرائیل کے لئے پیش کر کے آپ کے ساتھ اپنے غیر متزلزل محبت کا ثبوت دیا۔

انتخابی تاریخ اور مشرف کارڈ:

سن دوہزار دو عیسوی کو مشرف دور میں ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں چترال سے مشرف کی حمایت یافتہ جماعت مسلم لیگ (ق) سے موجودہ ایم این اے چترال افتخار الدین قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا الیکشن میں گرچہ اسے کامیابی نہ ملی البتہ ایم ایم اے کے امیدوار مولانا عبدالاکبر چترالی کے مقابلے میں دوسرے نمبر پہ رہے۔ اس الیکشن میں بھی چترال میں مشرف کارڈ کا بھر پور استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد سن دوہزار آٹھ میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں موجودہ ایم این اے کے والد محترم شہزادہ محی الدین مسلم لیگ(ق) کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور اس میں کامیاب ہوگئے اس کامیابی میں بھی پرویز مشرف کی مقبولیت کا بڑا عمل دخل تھا عوام چترال نے مشرف کے نام پر ان کے حمایت یافتہ امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا۔ گوکہ اپنی کامیابی کے بعد شہزادہ محی الدین مشرف کے حق میں بولنے سے کتراتے رہے۔ اس کے بعد سن دوہزار تیرہ کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر سابق ایم این اے چترال شہزادہ محی الدین کے دو فرزند آل پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا شروع میں چونکہ  قومی اسمبلی کی سیٹ میں مشرف خود الیکشن لڑرہے تھے جب ان کے گرد گھیرا تنگ کرکے انہیں الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تو ان کی جگہ قومی اسمبلی کی ٹکٹ پر افتخار الدین میدان میں اترے۔ جب مشرف کو الیکشن لڑنے سے محروم کرکے ان کو مختلف کیسوں میں الجھایا گیا تو سابق صدر اور ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ نے احتجاجا الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، لیکن ٹھیک اسی دوران آل پاکستان مسلم لیگ چترال کے امیدواروں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور الیکشن میں حصہ لیا جس میں مشرف کی چترال میں مقبولیت اور عوام کے دلوں میں ان کے لئے محبت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا انتخابات میں آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار برائے قومی اسمبلی شہزادہ افتخار الدین کو کامیابی ملی، اس کے بعد شروع میں ایم این اے چترال اپنی کامیابی کا سہرا مشرف کی چترال میں مقبولیت کے سر ڈالتے رہے پھر یکایک حالات تبدیل ہوگئے اور ایم این اے صاحب نے مشرف کے جانی دشمن نواز شریف کے ساتھ تعلقات استوا کرنا شروع کیا جب مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلایا گیا تو پاکستان پیپلزپارٹی سمیت متعدد جماعتوں نے اس ٹرائیل کی مخالفت کی لیکن ان کے اپنے جماعت کے ایم این اے کو لب کشائی کی توفیق نہ ہوئی۔ جب کراچی میں چترال کے نوجوانوں نے ایک پروگرام کا انعقاد کرکے مشرف کو مدعو کیا تو اس پروگرام میں بھی ایم این اے چترال جناب افتخار الدین نے شرکت کرنے سے قاصر رہے ۔

سال روان کے آغاز میں پشاور کے شاہی باغ میں آل پاکستان مسلم لیگ کا ایک بڑا اجتماع ہوا جس سے چیرمین اے پی ایم ایل پرویز مشرف نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اس تقریب میں چترال سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد شریک  ہوئے لیکن آل پاکستان مسلم لیگ چترال کے صدر اور ان کی کابینہ کہیں نظر نہ آئی اور نہ ہی ایم این اے چترال محترم افتخار الدین نے اس اجتماع میں شرکت کرنے کی زحمت گوارا کی اس کے چند ہی روز بعد بنی گالہ اسلام آباد میں ”ایک شام پرویز مشرف کے نام ” کے موضوع سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں اے پی ایم ایل کی جانب سے ڈاکٹر امجد بھی شریک ہوئے اے پی ایم ایل چترال کے صدر خالد پریز اسلام آباد میں موجود ہونے کے باؤجود اس پروگرام میں شرکت نہیں کی۔ یہ سارے ایسے حقائق تھے جس کی وجہ سے آل پاکستان مسلم لیگ کی ضلعی قیادت اپنے مرکزی سربراہ اور دوسری قیادت کے سامنے اعتماد کھو دئیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند روز قبل اچانک آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی قیادت نے پرویز مشرف سے مشورہ کرنے کے بعد اے پی ایم ایل چترال کے صدر خالد پرویز کو فارع کرکے اس کی جگہ سابق انکم ٹیکس کمیشنر جناب سلطان وزیر صاحب کو آل پاکستان مسلم لیگ کا صدر مقرر کیا سیاسی حلقوں کی جانب سے جہاں اس فیصلے کو بہت زیادہ سراہا جارہاہے وہیں خالد پرویز کی قیادت میں اے پی ایم ایل کے چند عہدے داروں نے احتجاجا پارٹی سے استعفی دینے کا اعلان کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آل پاکستان مسلم لیگ چترال کے سابق صدر خالد پرویز اپنے قائد پرویز مشرف اور پارٹی کی مرکزی قیادت کے فیصلے کو تسلیم کرتے، اور نو منتخب صدر کے ساتھ مل کر پارٹی کو مستحکم بنانے کے لئے کام کرتے۔ لیکن  پارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرکے پارٹی سے استعفی دینا بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں