206

دروش میں نامعلوم شخص کی ہلاکت کے حوالے سے خبریں حقائق کے بر عکس ہیں

دروش(نمائندہ ) گذشتہ دنوں دروش میں ایک نامعلوم شخص کو تشویشناک حالت میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لایا گیا جہاں پر دوران علاج وہ جان بحق ہوگیا تاہم مذکورہ شخص کی بابت کسی کو کچھ بھی معلومات میسر نہیں تھے۔ مقامی رضاکاروں نے فوری طور پر اس شخص کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کیں نیز بازار میں بھی اس لاش کی شناخت کے حوالے سے اشتہارات لگائے گئے تاہم 32گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی لاش کی شناخت نہ ہوسکی۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص کے موبائل میں سارا ڈیٹا ضائع ہوچکا تھا جبکہ اسکے سامان میں سے کوئی بھی ایسی چیز برآمد نہیں ہوسکی جوکہ اس کی شناخت میں مددگار ثابت ہو۔ پولیس نے مذکورہ شخص کے فنگر پرنٹس لیکر نادرا کے ذریعے شناخت کرانے کی کوشش کی مگر نادرا کے پاس مذکورہ شخص کا کوئی ڈیٹا نہیں ملا جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسکے پاس موجود موبائل سم کوئٹہ میں کسی شخص کے نام پر ہے جبکہ اسکے کپڑوں پر رحیم یار خان کے کسی ٹیلر نگ شاپ کے لیبل لگے ہوئے ہیں ۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص کو نامعلوم افراد دروش ہسپتال میں چھوڑ کر چلے گئے جس پر ہسپتال انتظامیہ نے مقامی پولیس کو آگاہ کیا۔اس حوالے سے سوشل اور مقامی میڈیا میں آنے والی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ پولیس کے سخت پہرے میں اس شخص کی جلدی تدفین کی گئی۔ مقامی صحافی کے مطابق کم از کم 32گھنٹے شناخت کی غرض سے دروش ہسپتال میں موجود رہی اور ایک مرحلے پر یہ کہا گیا کہ اس شخص کا تعلق چترال سے ہے تو مقامی رضاکار اور فلاحی تنظیم لاش کو چترال منتقل کرنے کی تیاری کر رہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ نماز تراویح کے بعد مراد اسٹیڈئم دروش میں نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں سینکڑوں کی تعدا د میں لوگوں نے شرکت کیں اور بعد ازاں مقامی رضاکاروں نے تبلیغی مرکز کے قریب واقع قبرستان میں امانتاً دفنایا۔ تدفین کے موقع پر پولیس کے سخت پہرے اور بڑی تعداد میں سپاہیوں کی موجودگی کی خبریں بھی خلاف حقائق ہیں کیونکہ اس موقع پر گاؤں بازار اور آڑیاں سے تعلق رکھنے والے نوجوان موجود تھے جبکہ پولیس تین سے چار اہلکار وہاں پر تھے، اسکے علاوہ لیویز کے اہلکار اور مقامی تحصیلدار بھی موجود تھے۔ نماز جنازہ معروف عالمدین مولانا سردار حسین نے پڑھائی جبکہ تدفین کے موقع پر وہ موجود تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بعد ازاں اگلے روز یہ اطلاعات منظر عام پر آئیں کہ مذکورہ شخص کو کسی پولیس اہلکار نے مارا تھا جسکے بعد پولیس نے بھی انکوائری شروع کی ہے۔ یہ بات بھی حقیقت معلوم نہیں ہوتی کہ مذکورہ شخص کا تعلق چترال کے کسی علاقے سے ہے کیونکہ انکے شناخت کے حوالے سے کوئی بھی ریکارڈ نادار کے پاس موجود نہیں پایا گیا جس سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شخص پاکستانی شہری نہ ہو۔ یہ افواہیں بھی منظرعام پر آئیں کہ اس شخص کا تعلق ضلع دیر سے ہے ، کچھ کا کہنا تھا کہ یہ بدخشان سے تعلق رکھنے والا تھا۔پولیس ذرائع کے مطابق لاش کا پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا ہے اور بعض سیمپل لیبارٹری ٹیسٹ کے لئے لاہور ،بھیجوائے گئے ہیں۔سپاہی ملزم ضیاالرحمن پولیس کی تحویل میں ہے ۔پولیس کی طرف سے تحقیقات جاری ہے اورمختلف آن لائن اخباروں اور سوشل میڈیا میں پولیس پر لگائے گئے الزمات پر مبنی پوسٹ اور خبریں حقیقت کے برعکس ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں