234

(دوسری قسط)۔۔۔ آل پاکستان مسلم لیگ چترال کا مستقبل کریم اللہ

جب سے سابق انکم ٹیکس کمشنر اور شہرت یافتہ شخصیت محترم سلطان وزیر صاحب کو آل پاکستان مسلم لیگ چترال کا صدر مقرر کیا گیا ہے تو آل پاکستان مسلم لیگ سمیت سارے سیاسی وسماجی حلقوں میں بحثوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جہاں اے پی  ایم ایل کے مرکزی قیادت کے اس فیصلے کو چترال میں عمومی طور پر سراہا جارہا ہے وہیں ایک گروپ ایسا بھی ہے جو اس ساری تبدیلی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اس سلسلے  میں سابق ضلعی صدر خالد پرویز نے اپنے پارٹی کے مرکزی قیادت کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت آل پاکستان مسلم لیگ کو خیر باد کہہ دیا ہے تو ان کے حمایتیوں نے سوشل میڈیا میں سلطان وزیر کی تقرری کو اے پی ایم ایل کے خلاف سازش قرار دے کر اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے خالد پرویز کے استعفی کے حق میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ جس جماعت میں ضلعی صدر کے رائے کی کوئی قدر نہ ہو وہاں رہ کر خود کو تذلیل کرنے سے بہتر ہے کہ پارٹی کو خیر باد ہی کہہ دیا جائے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں قیادت کی تبدیلی کوئی انہونی بات نہیں لیکن کئی برسوں تک اے پی ایم ایل کے سیاہ وسفید کے مالک رہنے اور اسی جماعت کے بل بوتے پر مقام حاصل کرنے کے بعد جب مرکزی قیادت نے ضلعی صدارت کا عہدہ واپس لے لیا تو فورا اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرکے پارٹی سے استعفی دیے دیا جو کہ سیاسی جمہوری عمل کے ساتھ سراسر مذاق کے مترادف ہے۔ سیاسی جماعتوں میں قیادت کی تبدیلی وقتا فوقتا ہوتی رہتی ہے۔ البتہ محترم خالد پرویز صاحب کو آل پاکستان مسلم لیگ کی ضلعی قیادت سے فارع کرنے کی وجہ ان کے اور ان کے بڑے بھائی اور اے پی ایم ایل کے ایم این اے محترم افتخار الدین کی جانب سے مسلسل پارٹی پالیسیوں کی خلاف ورزی اور دوسرے جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ان کی قربتین ہے، جس کی وجہ سے بالآخر سابق صدر جرنیل پرویز مشرف اور اے پی ایم ایل کے مرکزی قیادت کو احساس ہوا کہ ان کے ضلعی صدر اب مزید پارٹی قیادت کے اہل نہیں رہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے اور سابق بیوروکریٹ سلطان وزیر کو نہ صرف آل پاکستان مسلم لیگ میں شامل کیا گیا بلکہ آل پاکستان مسلم لیگ جیسے چترال کی بڑی سیاسی جماعت کی قیادت ان کو سونپ دی گئی۔ اے پی ایم ایل کے سابق ضلعی صدر اور ان کے ساتھیوں کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے جماعت کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرکے نئی قیادت پر بھروسہ کرتے اور ان کے ساتھ مل کر چترال میں پارٹی کو مستحکم کرنے کے لئے کام کرتے۔ محترم خالد پرویز صاحب کے استعفی کو بعض مبصرین کچھ دوسرے انداز سے دیکھ رہے ہیں ان کے مطابق  ایم این اے چترال افتخار الدین صاحب چونکہ اسمبلیوں کی مدت کے اختتام پر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے والے ہیں جبکہ خالد پرویز صاحب بھی اب اپنے لئے مسلم لیگ (ن) میں ٹھکانہ تلاش کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل پارٹی کے منشور اور قواعدہ وضوابط کی خلاف ورزی کرتے رہے جس کی وجہ سے ان کو عہدے سے فارع کیا گیا۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے موجودہ صدر سلطان وزیر کا شمار نیک نام افسران میں ہوتا ہے آپ روایتی سیاسی چال بازیوں سے ناواقف ایک سادہ مزاج کے مالک ہے جس کے انتخاب کو چترال کے ساری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر سراہ رہے  ہیں۔ کہا یہ جا رہاہے کہ سلطان وزیر کے بحیثیت ضلعی صدر منتخب ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر آل پاکستان مسلم لیگ کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ سکتی ہے۔ یہاں سلطان وزیر صاحب پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روایتی موروثی سیاست کا خاتمہ کرکے نئے چہروں کو اپنے ساتھ شامل کریں جو کہ لالچ و ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر مشرف کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا کیا گیا اور آزمائے ہوئے موسمی پرندوں کے بجائے نئے چہروں کو موقع فراہم کیا  تو آل پاکستان مسلم لیگ چترال میں ایک بار پھر بڑی قوت بن کے ابھر سکتی ہے۔ بصورت دیگر سابق ضلعی صدر، ان کے کیچن کابینہ اور ایم این اے چترال کی وجہ سے اے پی ایم ایل کو چترال میں جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس کا آزالہ ممکن نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں