321

قطر: بلی تھیلے سے باہر آگئی۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

سعودی عرب اور قطر کے درمیاں سفارتی جنگ کو دو ہفتے گذر گئے پہلے ہفتے بعض تجزیہ نگاروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ قطر نے امریکی احکامات ماننے میں تامل کا مظاہرہ کیا ہے مگر حکم مانے بغیر چارہ نہیں قطر موجودہ دور کا وہ عراق اور لیبیا ہے جہاں صدام حسین اور معمر قذافی حکومت میں تھے جس سے اسرائیل کو خطرہ تھا آج قطر سے اسرائیل خوف زدہ ہے اس لئے کسی نہ کسی بہانے اس کو ختم کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے یا بھتہ دیگا یا سعودی عرب کے ذریعے اس کا حشر عراق، لیبیا ،شام اور یمن کی طرح کیا جائے گا دو ہفتے پورے بھی نہیں گذرے تھے 16جون کے اخبارات میں خبر آگئی ہے کہ قطر نے امریکہ کے ساتھ 12ارب ڈالر کا معاہدہ کیا معاہدے کی رُو سے قطر امریکہ سے 32ایف 16طیارے خریدے گا 200ارب ڈالر کا دوسرا معاہدہ پائپ لائن میں ہے 100ارب ڈالر الغدید فوجی بیس میں امریکی سنٹرل کمانڈ کو قطر ادا کرے گا یعنی امریکی سنٹرل کمانڈ سے الغدید چھاونی کا کرایہ لینے کی جگہ امریکی فوج کے قیام کا خرچہ قطر برداشت کرے گا مزید بھتہ مانگا گیا تو بلا چون و چرا بھتہ ادا کرے گا ورنہ سعودی عرب کے ذریعے قطر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائیگی یہ مسلم امّہ کا حال ہے اور یہ مسلم امّہ کے غریب ، قحط زدہ ، مقروض ملک کا حال نہیں، بیحد دولت مند ، بے تحاشا خوش حال اور بہت طاقتور ملک کا یہ حال ہے مسلم امّہ کے دیگر ممالک کا حال اس سے بھی پتلا ہے یہ 1970ء کے عشرے کا ذکر ہے اس وقت ایم کیو ایم نہیں بنی تھی بھتہ کلچر سے لوگ واقف نہیں تھے چارسدہ میں ایک مفرور کا بڑا چرچا تھا مفرور کا نام ’’ڈبنگئے‘‘ تھا ڈبنگئے کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ چُن چُن عزت دار اور دولت مند خاندانوں کو پیغام بھیجتا تھا اور ایک خاص رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا تھا اگر جواب آتا کہ کس خوشی میں تمہیں یہ رقم دی جائے ؟ تو اگلی رات مفروروں کو لیکر حملہ کرتا عزت کو تار تار اور دو چار کو قتل کرکے بھتہ لے جاتایہ واردات ڈکیتی کہلاتی تھی اور ڈکیتی کے پیچھے ڈبنگئے کا نام نامی اور اسم گرامی لیا جاتا اُن کا نام آنے کے بعد لوگ توبہ کرکے کانوں کو ہاتھ لگاتے اور بھتے کی رقم گن گن کر تیار کرکے ڈبنگئے کے اگلے پیغام کا انتظار کرتے آخر کار یہ ہوا کہ ڈبنگئے کو پولیس نے نہیں پکڑا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نہیں مارا ڈبنگئے کا انجام ایسا ہوا کہ خود اس کے ساتھیوں نے اس کو گولی مار کر آدھی رات کے وقت اس کی لاش ایسی حالت میں تحصیل بازار سے پرانے چارسدے کی طرف جانے والی سڑک پر ڈال دی کہ ابھی اس میں جان باقی تھی اس کے گلے کی ایک رگ کاٹی گئی تھی خون بھی بہتا تھا اور خوفناک آوازیں بھی آرہی تھیں وہ سڑک پر تڑپ رہا تھا مفرور چاروں طرف پہرہ دے رہے تھے پولیس کو آگے آنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی رمضان کا مہینہ تھا اور سحری کے وقت لوگوں کا بڑا ہجوم یہ عبرتناک انجام دیکھ رہا تھا صبح کی اذان کے تھوڑی دیر بعد ڈبنگئے کی لاش ٹھنڈی ہوگئی تو مفروروں نے محاصرہ اُٹھالیامفرور قبرستان کے راستے فرار ہوگئے پولیس نے پھرتی دکھا کر لاش کو قبضے میں لے لیا اور پوسٹمارٹم کے لئے مردہ خانہ منتقل کیا ڈبنگئے کا طریقہ واردات نصف صدی گذرنے کے بعد عالمی سطح پرہمیں قدم قدم پر نظر آرہا ہے عالمی سیاست کا ڈبنگئے کبھی صدام حسین سے کبھی کرنل معمر قذافی سے ، کبھی بشارلاسد سے کبھی قطر کے شیخ سے بھتہ مانگتا ہے بھتہ نہ دینے پر ڈبنگئے خود حملہ نہیں کرتا کسی چچا زاد بھائی یا پڑوسی کے ذریعے حملہ آور ہوتا ہے اور خود حملہ آور کی مدد کے بہانے جائے واردات پرآکر اپنا بھتہ وصول کرتا ہے 12ارب ڈالر کا سودا محض ایک علامتی سودا ہے یہ ابتدائی ڈیل (Deal)ہے کاروباری زبان میں اس کو ’’ساہی‘‘ کہتے ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ برف پگھل رہی ہے آسامی نے بھتہ دینا قبول کرلیا ہے سردست حملہ کرنے کی ضرورت نہیں جب ضرورت پڑی حملہ کی دوبارہ تیاری کی جائیگی یہ امریکی معیشت کا نازک اور پیچیدہ مسئلہ ہے 200سال پہلے امریکی معیشت کی بنیاد چار چیزوں پر رکھی گئی تھی زرعی پیداوار ، صنعتی پیداوار ، جنگی ہتھیار اور سودی قرضوں کا پھیلتا ہوا کاروبار اب زرعی پیداوار کی اہمیت کم ہوگئی ہے پاکستان جیسے ممالک بھی اپنا گندم خود اُگانے لگے آلو اور مونگ پھلی بھی کاشت کرنے لگے صنعتی شعبے میں چاپان ، چین ، کوریا ، تائیوان اور دیگر ایشیائی ممالک نے اپنی سستی مصنوعات کا جال بچھا کر امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا امریکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے سودی قرضوں کا بڑا کاروبار رہ گیا ہے اور جنگی ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر فروخت اس کی ضرورت بن گئی ہے اسرائیل کا بھی یہی مسئلہ ہے ایک چھوٹا سا ملک 68سالوں سے 18عرب ممالک اور 57اسلامی ریاستوں کے سینوں پر مونگ دل رہا ہے اس کے پاس بھی ہتھیاروں کی تجارت اور سودی قرضوں کے لین دین سے آنے والی دولت ہے ’’پروٹوکال آف زیون‘‘ کو اردو میں صیہونی اعلامیہ کا نام دیا جاتا ہے ، کرنل محمد ایوب نے انگریزی سے اس کا اردو ترجمہ کیا ہے یہودیوں کا ڈیڑھ سو سال پرانا اعلامیہ دوباتوں پر زور دیتا ہے’’ جنگ کراؤ، جنگ کے لئے پروپیگینڈے کے ذرائع اپنے پاس رکھو، جنگ کا بازار گرم ہوجائے تو دونوں فریقوں کو اسلحہ فروخت کرکے منہ مانگے دام لے لو، وہ اسلحہ خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو اپنے بینکوں سے منہ مانگے سود پر قرضہ فراہم کرو پوری دنیا کی دولت تمہارے قدموں میں ہوگی‘‘ اس پروٹوکال کی روسے قطر اور سعودی عرب کی لڑائی پر غور کرو 380ارب ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب خرید رہا ہے اتنا ہی اسلحہ قطر خریدے گا یہ ڈبنگئے کا بھتہ ہے آج کل اس کو عالمی سیاست کا نام دیا جاتا ہے کسی نے سچ کہا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں