267

بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ معیار کے مطابق ہر صورت میں چھ مہینے کے اندر یا اس سے پہلے مکمل ہونا چاہئے.وزیراعلیٰ

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کی تکمیل کی مدت بعض ٹینڈرز میں چھ کی بجائے آٹھ مہینے درج کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ شہری ٹرانسپورٹ کا یہ اہم ترین منصوبہ معیار کے مطابق ہر صورت میں چھ مہینے کے اندر یا اس سے پہلے مکمل ہونا چاہئے ۔ انہوں نے تاخیر کی صورت میں ذمہ داران کو بھاری جرمانے کرانے کی ہدایت کی۔ یہ ہدایت انہوں نے خیبر پختونخوا اربن موبیلٹی اتھارٹی کے زیر اہتمام پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ پر وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں منعقدہ پریزنٹیشن کے دوران جاری کی جس میں سینئر وزیر سکندر شیرپاؤ، صوبائی وزیر برائے ٹرانسپورٹ ملک شاہ محمد وزیر، ضلع ناظم ارباب محمد عاصم، وزیراعلیٰ کے فوکل پرسن برائے پشاور میگا پراجیکٹس شوکت علی یوسفزئی ،وزیراعلیٰ کمپلینٹ سیل کے چیئرمین حاجی دلروز خان، چیف سیکرٹری عابد سعید، ایڈیشنل چیف سیکرٹری محمد اعظم خان اور متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریوں و حکام کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بنک کے علاقائی ڈائریکٹر کی زیر قیادت مشن نے بطور خاص شرکت کی۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر ریپیڈ بس کی برانڈنگ اور لوگو (سلوگن) کی منظوری دی جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک مشن کی درخواست پر منصوبے کے دو حصوں ایچ ون اور تھری کی بولی بعض فنی وجوہات کی بناء پر 19 جون کی بجائے 29 جون سے بڑھانے سے اُصولی اتفاق کیا ۔ البتہ یہ بھی واضح کیا کہ منصوبے کی ہر قیمت پر چھ ماہ یا اس سے پہلے عالمی معیار کے مطابق تکمیل ہونی چاہیے۔ ایشیائی بینک منصوبے کیلئے 42 ارب روپے مہیا کر رہا ہے جبکہ ساڑھے سات ارب روپے کا خرچ صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔ پرویز خٹک نے متعلقہ کنسلٹنٹ پر یہ بھی واضح کیا کہ بس ٹرانزٹ کے سٹیشن ایک ہی پرکشش ڈیزائن میں سٹیٹ آف دی آرٹ شکل میں ہونے چاہئیں ۔واضح رہے کہ منصوبے کیلئے تین کنسلٹنٹ مقرر کئے گئے ہیں جنہیں کوآرڈی نیشن ، آپریشن ، ڈیزائن بزنس ماڈل اور کنسٹرکشن پلان کے الگ شعبے حوالے کرکے اپنے فرائض بین الاقوامی معیار کے مطابق ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے اور تعمیر اتی کام کے دوران مقامی شہریوں کی سہولت اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے بنک کی سفارش پر ریپڈ بس کے ساڑھے تین میٹر روٹ میں درمیان کی ایک میٹر سٹرپ ہلکی گھاس کے لئے کھلی چھوڑنے سے بھی اتفاق کیا جو دنیا کے دس ممالک میں کامیابی سے زیر استعمال ہے اور تعمیراتی لاگت میں کمی کے علاوہ روٹ کی خوبصورتی کا باعث ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ انکی ہدایت پر اتھارٹی کے تعمیراتی کام اوربس ریپڈ ٹرانزٹ کے لئے درکار ضروری سٹاف بھرتی کرنے پر کام شروع ہو چکا ہے ۔بس رپیڈ ٹرانزٹ کے چار پیکجز کی منظوری دی گئی ہے۔ پہلا پیکج مین بس ٹرمینل چمکنی سے قلعہ بالا حصار، دوسرا امن چوک تک، تیسرے پیکج کا اختتام حیات آباد پر ہوتا ہے جبکہ چوتھے پیکج میں کمرشل عمارات کی تعمیر شامل ہے ۔وزیر اعلیٰ نے منصوبے کے تعمیری پلان میں معمولی ترامیم کے ساتھ کوریڈور کے تین پیکجز کی منظوری بھی دی اور ہدایت کی کہ منصوبے کے اصلی ڈیزائن میں ترامیم پراجیکٹ کی بر وقت تکمیل میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیءں۔ انہوں نے منصوبے پر بروقت عملدرآمد اور اسکی تکمیل کے لئے کوششوں کو تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے کی بروقت تعمیر پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا اور اس سلسلے میں کسی تاخیری حربے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بنک کی طرف سے تیار کردہ اصلی ڈیزائن کی درستگی کی تیسری پارٹی کے ذریعے تصدیق سے بھی اتفاق کیا۔ وزیر اعلیٰ کو منصوبے کے انجنیئرنگ ڈیزائن ، رنگوں کے امتزاج، منصوبے کی لمبائی اور چوڑائی اور بس سٹیشنوں کی مجوزہ توسیع پر تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک منفرد ڈائریکٹ سروس آپریشنل ماڈل ہوگا۔ مین کوریڈور28 کلومیٹر طویل ہے جس میں 6 کلو میٹر ایلیو یٹڈ اور5کلو میٹر ٹنل شامل ہے۔ ٹرانزٹ روٹ پر مجموعی400تک جدید ائیر کنڈیشنڈ بسیں چلائی جائیں گی جن کا کرایہ انتہائی واجبی ہو گا۔ منصوبے کے تحت 32 سٹیشنز ہوں گے جن میں سے 5 ایلیویٹڈ اور ایک زیر زمین ہوگا۔ منصوبے کیساتھ 68 کلو میٹر لمبائی تک سات رابطہ روٹس بھی منسلک ہوں گے جس کی وزیر اعلیٰ نے پہلے ہی منظوری دی تھی۔ فیڈر روٹس پر بھی شیلٹر کے ساتھ150 اعلیٰ معیار کے بس سٹاپس ہوں گے ۔61 کنال کمرشل ایریا ڈویلپمنٹ کے علاوہ 6 منازل پر مشتمل پارکنگ پلازہ، بائک شیئر سسٹم، کوریڈور کے ساتھ پیدل چلنے والوں کیلئے علیحدہ انفراسٹرکچر اور دیگر اضافی فیچرز بھی شامل ہونگے ۔وزیر اعلیٰ نے پشاور ریپڈبس ٹرانزٹ کا دیگر منصوبوں سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو لاہور اور اسلام آبادکے برعکس اس منصوبے کے لئے سبسڈی نہیں دینا پڑے گی۔ پشاور میں اس منصوبے سے روزانہ تقریباً 5 لاکھ افراد مستفید ہوں گے جبکہ پنجاب اور اسلام آباد میں صرف ایک لاکھ مستفید ہورہے ہیں۔ پشاور منصوبے میں کافی منفرد فیچرز ہیں جو لاہور، اسلام آباد اور ملتان کے میٹرو بس منصوبوں میں موجود نہیں ۔ پشاور بس ریپڈ پہلا گولڈن سٹینڈرڈ تھرڈجنریشن بی آرٹی سسٹم ہوگا۔ پشاور بس ریپڈٹرانزٹ کے مین کوریڈور 26 کلو میٹر طویل کی مجوزہ لاگت 33 ارب روپے ہے جو 1.270 ارب فی کلومیٹر بنتی ہے۔ اسکے برعکس ملتان کے صرف 18.2 کلومیٹر طویل روٹ کی لاگت 29 ار ب روپے ہے جو 1.566 ارب روپے فی کلومیٹر ہے اور یہ پشاورسے 23 فیصد زیادہ ہے اسی طرح اسلام آباد کے 23.2 کلومیٹر طویل روٹ کی لاگت50 ارب روپے ہے جو 2.155 ارب روپے فی کلو میٹر ہے یہ بھی پشاور بی آر ٹی سے 70 فیصد زیادہ ہے جبکہ لاہورمیٹرو سروس کے صرف 27 کلو میٹر طویل روٹ کی لاگت 60 ارب روپے ہے جو 2.222 ارب روپے فی کلومیٹر ہے اور پشاور بی آر ٹی کے مقابلے میں 75 فیصدزیادہ ہے۔ وزیراعلیٰ نے منصوبے کے تحت شاپنگ پلازوں کی تعمیر، مجموعی ٹریفک پلان اورٹینڈر کیلئے متعین تاریخوں کی بھی منظوری دی۔ انہوں نے منصوبے کے تینوں پیکجزکا ٹنڈر 30 ۱پریل تک یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں مختلف یوٹیلٹیزاور کوریڈور کی کشادگی جبکہ منصوبے کیلئے 31 سٹیشنوں کی بھی منظوری دی گئی۔ انہوں نے منصوبے کے استعمال میں آنے والے موجودہ سٹرکچر کو متوازن بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ نے حیات آباد اور ڈبگری گارڈن میں اڈوں اور سٹیشنوں کیلئے زمین کی منتقلی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل میں چند دن لگنے چاہیءں۔ وزیر اعلیٰ نے منصوبے کے تحت پلوں، سٹیشنوں وغیرہ کی اونچائی حقیقت پسندانہ رکھنے اور پراجیکٹ کو فاسٹ ٹریک پر ڈالنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ نے موجود انفرسٹرکچر کو بھی مضبوط کرنے کی ہدایت کی جو جزوی طور پرمنصوبے کے لئے استعمال ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کمرشل سرگرمیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ کافی دیر پا اور نفع بخش ثابت ہوگا۔انہوں نے محکمہ پولیس، مواصلات و تعمیرات، ایریگیشن اور دیگر محکموں کو اجلاس منعقد کرکے اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنے کی ہدایت کی۔انہوں نے جولائی کے آخر تک منصوبے کا مالی ماڈل تیار کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ مالی ماڈل میں آپریشنل لاگت اور اصل رقم کی واپسی کے طریق کار کی نشاندہی ہونی چاہئے۔انہوں نے 15مئی سے پہلے مکمل فزیبلٹی تیار کرنے کی ہدایت کی۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آنے والے وقت میں ٹائم اہم فیکٹر ہو گا۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ یہ پراجیکٹ کو پورے صوبے کوباہم مربوط کرے گا۔ اس لئے ہم نے مستقبل کی ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔یہ پراجیکٹ سفری سہولیات کا اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے اسکو دیکھ کر آگے پورے صوبے کے لئے سفری سہولیات کو آسان اور دیرپا بنانا ہے۔اس منصوبے کو چلانے کے لئے عملے کی استعداد کار میں اضافہ ناگزیر ہے جسکے لئے بہترین تربیت کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ آئندہ نسلوں کا پراجیکٹ ہے اور اسی تناظر میں پیش رفت ہونی چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں