237

پھنڈراورلاسپوروالے شندورکے حقیقی مالک ہیں،شندورکے حوالے تمام دستاویزات میرے پاس ہیں/پیرکریم علی شاہ

اشکومن(کریم رانجھا) ؔ شندور کے معاملے میں ڈیورنڈ لائن کو مد نظر رکھا جائے،واٹر فال قدرتی تقسیم ہے، حدود کا تعین حکومت کا کام ہے،مس جنالی کاب نے بنایا اور وہ گلگت بلتستان کا پولیٹیکل ایجنٹ تھا،شندور کے معاملے میں ہمیں اعتماد میں نہیں لیاگیا،ہمارے دور میں تاجکستان روڈ اشکومن سے بن رہا تھا لیکن طالبان کے خوف کی وجہ سے منصوبہ ترک کردیا گیا،سلپی اور اشکومن آر سی سی پل گیلانی نے میرے کہنے پہ منظور کیا تھا،سابق گورنر گلگت بلتستان پیر کرم علی شاہ کے چشم کشاء حقائق ،سابق گورنر گلگت بلتستان پیر سید کرم علی شاہ نے غیر رسمی ملاقات میں انکشاف کیا ہے کہ شندور کے معاملے میں حقائق کو نظر انداز کیا جارہا ہے،واٹر فال زمینی حقیقت اور ڈیورنڈ لائن انگریزوں کے وقت کی تقسیم شدہ ہے ،پھنڈر اور لاسپور والے حقیقی مالک ہیں ان دونوں کو فیصلہ کرنے دیں،چلاس اور مرکزی چترال والوں کا کوئی حق نہیں،شندورکے حوالے سے تمام دستاویزات میرے پاس ہیں لیکن حکومتی نمائندوں نے مجھ سے رابطہ کئے بغیر شندورکمیٹی میں چلاس اور سکردو کے لوگوں کو شامل کیا جن کو حقائق کا کچھ پتہ نہیں۔چترال سکاؤٹس کیمپ بنا سکتے ہیں تو گلگت سکاؤٹس بھی جائیں،ان کو کس نے روکا ہے،گلگت کی ٹیم مہمان بن کے شندور جاتی ہے،آج تک ان کو میزبانی کا شرف نہیں ملا،میرے دور میں شندور کا ایشو پیدا ہی نہیں ہوا۔ان حقائق کا انکشاف سابق گورنر گلگت بلتستان پیر سید کرم علی شاہ نے چٹورکھنڈ میں عید کے روز میڈیا کے نمائندے سے غیررسمی ملاقات کے دوران کہی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اشکومن اور سلپی آر سی سی پل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے میرے کہنے پہ منظور کیا تھا،اس دور میں براستہ اشکومن تاجکستان روڈ کا منصوبہ بھی زیر غور تھا لیکن طالبان کے خوف سے منصوبہ ترک کردیا گیا۔شندور کا ایشو بیوروکریسی کا پیدا کردہ ہے۔آرمی چوکی بناسکتی ہے لیکن حدود کا تعین کرنا حکومت کا کام ہے،گلگت بلتستان سکاؤٹس کو میں نے دس بار کہا کہ ایک سال شندورمیں آپ بیٹھیں اور ایک سال چترال سکا ؤٹس ،لیکن فورس کمانڈر گلگت بلتستان کو معاملے میں دلچسپی ہی نہیں۔چٹورکھنڈ کی اراضی رشتہ داری کی بنیاد پر مجھے میر امان الملک نے دیا،چٹورکھنڈ کا پولوگراؤنڈ میرے دادا سید شاہ کلاں نے بنایا اور مسٹرکاب کے کہنے پہ سرکار کو دیا ،چٹورکھنڈ کے لوگ تیار خور ہیں،اگر اشکومن کے لو گ میری عزت رکھتے تو 2013کے الیکشن میں مجھے 50اور 100 ووٹوں سے نہ ہراتے،وخی لوگوں کی ووٹوں کی وجہ سے میری پارٹی جیت گئی۔اب میں سیاست سے فارغ ہوچکا ہوں ،اس معاملے میں نواز ناجی اسمبلی میں آواز اٹھائے لیکن اسمبلی میں اس کا سننے والا کوئی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں