193

راء کی خفیہ سرگرمیوں کا انکشاف ۔۔۔کریم اللہ

کل صبح انٹرنیٹ کھولا تو سوشل میڈیا پر سابق گورنر گلگت بلتستان پیر کرم علی شاہ کا ایک بیان محو گردش تھا جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ شندور کا تنازعہ لاسپور اور پھندر کے عوام مل بیٹھ کر حل کریں اس کے علاوہ انہوں نے تاریخی حوالے بھی دئیے تھے۔ اس بیان پر خاکسار کا تبصرہ یوں تھا کہ پچھلے چالیس برسوں سے پیر صاحب جی بی کی سیاست میں سیاہ وسفید کے مالک رہے ہیں لیکن اس دوران ان کو شندور کی زمین کے تنازعے کو حل کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔؟ پچھلے دور میں وہ پانچ برسوں تک جی بی کے گورنر رہے اس دوران بھی پیر صاحب کو شندور کی حد بندی پر لب کشائی کی توفیق نہ ہوئی۔
شام کو انہی اخباروں میں استاد محترم ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کا رپورٹ شائع ہو جس کا عنوان تھا ”بھارتی خفیہ ایجنسی اپنے کارندوں کے ذریعے ہر سال شندور پولو فیسٹول کے موقع پر بے بنیاد شوشے چھوڑتی ہے”۔ اس رپورٹ میں استاد محترم نے اپنے تخیلات کو بروئے کار لاتے ہوئے لکھا ہے ”اس سال گلگت کے بعض شر پسند عناصر نے علاقے کی نہایت معزز ہستی پیر کرم علی شاہ کی کبر سنی اور بیماری سے فائدہ اٹھا کر پیر صاحب کا نام استعمال کر کے ایک بار پھر بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کیا ہے اور پیر صاحب کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دے کر شندور کو ڈیورنڈ لائین دکھانے کی مذموم کوشش کی ہے”۔ آگے جاکر لکھا ہے” شرپسند عناصر پچھلے سال کور کمانڈر لفٹنٹ جنرل ہدایت الرحمن کا نام استعمال کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان کے اس عظیم جنرل نے ان کی کوشش ناکام بنا دی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی لابی اور راء کے کارندوں کا نیٹ ورک علاقے میں بے چینی پھیلانے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ پیر صاحب کی شخصیت ہمارے لئے بے حد قابل احترام ہے مجھے یقین ہے کہ ان کی گفتگو کو توڑ مروڑ کر غلط رنگ دیا گیا ہے”۔
کئی دہائیوں سے صحافت سے وابسطہ رہنے والے استاد محترم کو رپورٹ شائع کرتے وقت یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ پیر کرم علی شاہ کے اس بیان پر ان کا موقع سنتے لیکن اس کی بجائے ”مجھے یقین ہے ” کی اصطلاح استعمال کر کے اپنے بیان کو وزنی بنانے کی کوشش کی ہے۔ اگر وہ بیان پیر کرم علی شاہ کا نہیں تھا تو میڈیا ہاؤسز اور بالخصوص فیضی صاحب رپورٹ تیار کرتے ہوئے کرم علی شاہ سے رابطہ کرتے اور بقول فیضی صاحب کے راء کے ایجنڈوں کے ان مذموم عظائم کو خود پیر کی زبانی خاک میں ملا دیتے۔
فیضی صاحب کے اس بیان میں انتہائی احتیاط سے یہ کہنے کی کوشش کی گئی کہ چونکہ پیر صاحب صعیف العمر اور بیمار ہے لہذا خفیہ چالوں کے ذریعے ان سے منسوب ایک بالکل غلط بیان شائع کیا گیا اگر ایسا ہے تو پھر اس بیان پر پیر کرم علی شاہ صاحب کی رائے معلوم کیا جائے۔ یا پھر انتہائی غیر مرئی انداز سے اس بیان ہی کو سازش کہا گیا ہے۔ اگر کہیں سے بھی کوئی غیر روایتی بیان سامنے آتا ہے تو استاد محترم کو اس میں راء، موساد، سی آئی اے،(پرانے زمانے میں بلیک واٹر) وغیرہ کی سازش نظر آتے ہیں۔ اب گزشتہ کئی برسوں سے بلیک واٹر منظر نامے سے غائب ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ نہ تو فیضی کے سازشی تھیوریز سے شندور کی ملکیت تبدیل ہوسکتی ہے اور نہ ہی پیر کرم علی شاہ کے بیان سے۔ یا پھر راء کی کوششوں سے۔ البتہ ہر بیان پر راء کی بدبو محسوس کرنے سے دونوں جانب کے عوام میں نفرت و عداوت کی فضاء پھیل سکتی ہے جو کہ دونوں جانب کے باشعور عوام کے لئے قابل قبول نہ ہو۔
سوشل میڈیا پر جن دوستوں نے میرے بیان کی وضاحت کرنے کی کوشش کی یا میرے بیان اور فیضی صاحب کے رپورٹ میں تضادات کو اشکار کرتے ہوئے مجھے صحافت کے شعبے میں کم سنی کا طعنہ دے رہے ہیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ ہر مظہر کا ایک موقع ومحل اور سیاق وسباق ہوتا ہے۔ جو ٹاپک فیضی صاحب نے اپنے رپورٹ کے لئے چنا ہےوہ اس پورے رپورٹ کو متنازعہ بنانے کے لئے کافی ہے۔ اس کے علاوہ ہم بھی اب اتنے بچے نہیں رہے ہم بھی کئی عرصے تک چترال کی صحافت و ادب کا مطالعہ کیا۔ یہاں کون کیا لکھ رہا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے نہ تو سقراطی ذہن کی ضرورت ہے اور نہ ہی آئن اسٹائینی تجسس کی۔ بس زرا سا تسلسل کے ساتھ جاری ہونے والے مطالعے پر نگاہ رکھی جائے تو سب کچھ اشکار ہوجاتا ہے۔ فیضی صاحب ہمارے لئے قابل احترام ہے لیکن نظریاتی اختلاف رکھنا اور ان کے دلائل کا رد لکھنا ان کے بیانات میں موجود تضادات کو سامنے لانا ہمارا جمہوری حق ہے جس کو چترال کے مین اسٹریم میڈیا میں گرچہ ہم سے بہت حد تک چھنا گیا ہے لیکن سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر تو خیر کسی کا بھی کنٹرول نہیں۔ باقی رہا چترال کی صحافت تو اس میں پسند وناپسند کی بنیاد پر جس انداز سے خبروں کو چھپایا جاتا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہاں تو ہر جانب حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا رجحان حد سے کچھ زیادہ ہی بڑھ چکے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں