403

داعش اور تورا بورا کمپلیکس۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

تورا بورا ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کی ایک کڑی ہے اس کو مغربی ہندوکش کا نام دیا جاتا ہے اور یہ افغانستان میں واقع ہے پشتو میں اس کا اصل نام ’’تورہ بوڑئیے‘‘ تھا امریکیوں نے غین پڑھنے کی زحمت سے بچنے کے لئے افغانستان کو افگانستان کا نام دیا اور ڑے کا تلفظ مشکل ہونے کی وجہ سے اپنی سہولت کے لئے اس کو تورا بورا کا نیا نام دیا چترال، وزیرستان اور سوات کی طرح امریکیوں نے تورا بورا میں زیر زمین غاروں کا بہت بڑا سلسلہ تعمیر کیا چترال میں بروز اور گوہیک کے مقامات پر دو غار امریکیوں نے تعمیر کرکے جمعیتہ اسلامی کو دیدیے تھے اب دونوں غاروں کو باہر سے بند کیا گیا ہے وزیرستان کے چھ بڑے غار ضرب غصب میں بند کردئیے گئے جب امریکیوں اور ان کے بھارتی کارندوں کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا سوات میں مٹہ کی پہاڑی وادی چیڑیال کے اندر 4غاروں کا کمپلیکس امریکیوں نے تعمیر کیا تھا اپریشن راہ راست کے دوران امریکیوں اور ان کے ایجنٹوں کو ان غاروں سے نکال کر اسلحہ برآمد کیا گیا یہ الگ کہانی ہے کہ امریکیوں نے سوات سے چارہزار جنگجووں کو 1200گاڑیوں میں اسلحہ کے ذخیرے کے ساتھ دیر اور باجوڑ کے راستے بحفاظت افغانستان منتقل کیا ان میں اکثریت بھارتی شہریوں کی تھی جو سوات پر امریکی قبضے کی جنگ لڑ رہے تھے 2009ء میں یہ جنگ پاکستان آرمی نے جیت کر دکھائی تورا بورا میں غاروں کا پرانا کمپلیکس حال ہی میں اخباری حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہے 2001ء میں غاروں کا یہ کمپلیکس پہلی بار میڈیا میں آیا تھا جب امریکہ نے اس کمپلیکس سے مو آپ اور ڈیزی کٹر بموں کا ذخیرہ اٹھانے کے لئے اردگرد کے علاقوں پر کارپٹ بم گرائے اور اپنا اسلحہ اٹھا لیا 1985ء میں امریکی صدر رونالڈ ریگن کو ایک بریفینگ میں تورا بورا کمپلیکس کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا امریکیوں نے 5سالوں کی محنت کے بعد یہاں پر اٹھارہ غاروں کا بہت بڑا کمپلیکس تعمیر کرکے القاعدہ کو دیدیا اس میں اسلحہ کے بڑے ذخائر ، فوجی تربیت کے مراکز ، رہائشی مکانات اور دیگر ضروری لوازمات مہیا کئے گئے ڈیزل جنریٹروں کے ذریعے بجلی مہیا کی گئی اور 18مربع کلومیٹر علاقے میں زیرزمین چھاونی قائم کی گئی امریکیوں کو سویت یونین کے خلاف 12سالوں کے اندر کامیابی کی امید نہیں تھی ان کا خیال تھا کہ جنگ کم از کم 30سالوں تک طول پکڑے گی تورا بورا کمپلیکس اس جنگ میں امریکی فوج کا رئیر پیڈ کوارٹر تھا جہاں عرب جنگجووں کو رکھا گیا تھا 1985ء سے 2017ء تک تورا بورا کمپلیکس القاعدہ کے پاس رہا 2001ء کی کارپٹ بمباری میں اردگر کے پہاڑ تباہ کئے گئے غاروں سے اسلحہ کی بڑی کھیپ باہر نکال کر بحفاظت باگرام منتقل کی گئی سویت یونین کو شکست دینے کے بعد عربوں،افغانوں اور پاکستانیوں پر امریکہ اعتبار نہیں کرتا 2017ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے تورا بورا کی زیر زمین چھاونی داعش کے حوالے کی ہے یہ جگہ القاعدہ سے لیکر داعش کو دینے کا عمل 2مہینوں کے اندر آسانی سے مکمل ہوا القاعدہ کے جنگجووں کے ایک چھوٹے گروہ نے تورا بورا خالی کرنے سے انکار کیا تو ان کے خلاف اپریشن کرکے بعض کو قتل کیا گیا بعض کو نکال دیا گیا’’میری بلی مجھے ہی میاوں‘‘ کا مقولہ اس پر صادق آتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ پچھلے چھ مہینوں سے امریکی فوج، اس کی ذیلی تنظیموں اور ٹھیکہ داروں کا کام کرنے والے گروہوں کی تنظیم نو پر توجہ دی ہے ٹرمپ انتظامیہ کا خیال ہے کہ الشباب ، بوکوحرام اور القاعدہ کا نیٹ ورک 40سالوں میں بہت پرانا ہوگیا بہت سے سربستہ راز فاش ہوگئے ان تنظیموں کے مقابلے میں داعش پر زیادہ اعتماد کیا جاسکتا ہے چنانچہ مئی سے جون تک دو مہینوں کی تگ ودَو کے بعد تورا بوراکمپلیکس کا کنٹرول امریکیوں نے داعش کے ہاتھ میں دیدیا اس کمپلیکس سے امریکی جنگجو پاکستان پر حملے کرینگے۔سی پیک اور چینی کمپنیوں کے خلاف دہشت گرد کاروائیاں کرینگے تورابورا میں داعش کے جن جنگجووں کو رکھا یا ہے ان میں عربوں کی تعداد کم ہے ازبک، افغان اور بھارتی جنگجو زیادہ ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ داعش کا پورا نام دعوت اسلامی برائے عراق و شام (داع ش) رکھا گیا ہے تورا بورا میں داعش کی کمان عیسائیوں اور ہندووں کے ہاتھ میں ہے اب عیسائی اور ہندو کس طرح ’’دعوت اسلامی کا’’مقدس مشن‘‘ چلا رہے ہیں؟ یہ الگ بحث ہے القاعدہ ،الشباب اور بوکوحرام کی کمان بھی کسی مسلمان کمانڈر کے ہاتھ میں کبھی نہیں رہی ان تنظیموں میں امریکیوں کے علاوہ روسی ،جرمن اور برطانوی فوجی افیسروں کو بھی ریش مبارک اور دستار شریف سے مشرف و مزین کرکے بھرتی کیا گیا امریکہ میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، حکمران کوئی بھی ہو، دہشت گردی ہر دور میں ریاستی پالیسی رہی ہے جاپان، کوریا اور ویت نام میں بھی دہشت گردی سے کام لیا گیا صومالیہ، سوڈان ، الجزائر ،یمن ، عراق ،شام ،افغانستان، لیبیا اور پاکستان میں بھی دہشت گردی کو امریکی سرپرستی حاصل رہی اس کی معقول اور مشہور وجہ یہ ہے کہ امریکی معیشت کا بڑا ذریعہ آمدن جنگ ہے اور دہشت گردی کے ذریعے اسلحہ فروخت کیاجاتا ہے جنگ سے تباہ حال ممالک کو سودی قرضوں کے دام میں پھنسا یا جاتا ہے اس لئے دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر فروغ دینا اور داعش جیسی تنظیموں کی تربیت کرنا امریکہ کی مجبوری ہے تورا بورا کمپلیکس میں داعش کا نیا ہیڈ کوارٹر امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں