334

فورم فار لینگویجز انیشے ٹیوز (ایف ایل آئی ) کے تحت چترال میں میڈیا سے منسلک افراد کے لئے یک روزہ سیمینار

چترال (نمائندہ ڈیلی چترال ) فورم فار لینگویجز انیشے ٹیوز (ایف ایل آئی ) کے تحت چترال میں میڈیا سے منسلک افراد کے لئے یک روزہ سیمینار میں مقامی زبانوں کی اہمیت اور مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی ضرورت اور کسی زبان کو معدومیت سے بچانے کے لئے میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے چترال کی مقامی میڈیا کی جدوجہد پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اورچترال کے طول وعرض میں بولی جانے والے دس سے بھی ذیادہ زبانوں کی ترقی اور تحفظ میں کئی تجاویز بھی پیش کردئیے گئے ۔ ایف ایل آئی کے ایگزیکٹیو ڈائرکٹر فخرالدین اخونزادہ نے کہاکہ چترال کے صحافیوں کو زبان وادب کے بارے میں رپورٹنگ اور زبان سے متعلق کسی بھی موضوع پر تحقیق کے لئے ان کے ادارے کی خدمات حاضر ہیں جبکہ صحافیوں پر یہ فرض بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ زبان اور ادب کے علاوہ لوک روایات اور کلچر کے بارے میں بھی ایسے گوشوں اور ں حالات وواقعات اور حقائق کو سامنے لے آئیں جوکہ اب تک عام نظروں سے اوجھل ہیں۔ انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ چترال میں ایک گاؤں ایساہے جہاں کے رہنے والے بیک وقت چار زبانوں پر عبور رکھتے ہیں لیکن ابھی علاقے سے باہر معدودے چند افراد کو ہی اس کے بارے میں معلومات حاصل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ شمالی پاکستان میں بسنے والے مختلف لسانی گروہوں کو تعلیم اور تربیت کے ذریعے اپنی زبان میں ادبی مواد تخلیق کرنے اور اپنی زبان میں ترقی اور لوگوں کی فلاح کے لئے استعمال کے قابل بنانا ایف ایل آئی کے مقاصد میں سے ایک ہے۔ اس سے قبل چترال کے معروف محقق ، دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے چترال میں مقامی زبان کی ترقی میں چترال پریس کلب کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ چترال میں پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے منسلک صحافی زبان وادب سے متلعق رونما ہونے واقعات کی رپورٹنگ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن مختلف موضوعات پر تحقیق کرکے تفصیلی رپورٹ یا ٹی۔ وی پیکج کی تیاری کی کمی ہے جبکہ زبان وادب اور کلچر سے متعلق شخصیات کا انٹرویو بھی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایف ایل آئی کے سینئرافیسر ایڈوکیسی محمد زمان ساگر نے مادری زبان کی بنیاد پر مبنی کثیر اللسانی تعلیمی پروگرام کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ دنیا بھر میں اس کی اہمیت وضرورت کے احساس کے پیش نظر ایف ایل آئی نے اس ضمن میں عملی قدم اٹھانا شروع کرنے اسے سائنسی خطوط پر استوار کردی ہے اور چترال کے دو سکولوں میں تجرباتی طور پر اس پروگرام کا اجراء کردیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج برامد ہورہے ہیں۔ انہوں نے تفصیل سے کثیر اللسانی تعلیمی پروگرام کی افادیت پر ملٹی میڈیا کی مدد سے روشنی ڈالی۔ مادر ٹانگز انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشن اینڈ ریسرچ چترال کے چیرمین فرید احمد نے چترال میں مادری زبانوں کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کرنے والی مسائل بیان کرتے ہوئے کہاکہ تحریری مواد کا نہ ہونا، معیاری تحریری صورت کا نہ ہونا، رسم الخط کی عدم یکسانیت، سوشل میڈیا کا یلغار، زبانوں کا ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل نہ ہونا، تنظیم سازی کا فقدان اور لواری ٹنل اور سی پیک روٹ کی وجہ سے غیر مقامی افراد کاممکنہ یلغار ایسے مسائل ہیں جن سے چترال کی مادری زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس موقع پر کھوار کے معروف ادیب اور شاعر مولانگاہ نگاہ، گورنمنٹ کالج بونی کے پرنسپل پروفیسر ممتازحسین، محمد یوسف شہزاد، پروفیسر رحمت کریم بیگ، پروفیسر شمس النظر فاطمی، قاری فدا محمد، اقرار الدین خسر و ، محمد نسیم ، چترال پریس کلب کے سابق صدر جہانگیر جگر اور دوسروں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکھوار زبان کو سوشل اور پرنٹ میڈیا میں نمایان جگہ دیا جائے اور زبان کی ترقی کا کام گراس روٹ لیول پر شروع کرنے سے اس کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین نے مقامی میڈیا کے لئے منعقدہ سیمینار کو ا نتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہاکہ ایف ایل آئی کی اس نشست نے چترال کے صحافیوں کو زبان وادب اور ثقافت کے حوالے سے رپورٹنگ اور لکھنے کے حوالے نئی جہت سے آشنا کردیا ہے ۔انہوں نے ایف ایل آئی کے ایگزیکٹیو ڈائرکٹر فخرالدین اخونزادہ اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں