242

مذہبی سیاست اور اہالیان چترال کی پسماندگی ۔۔۔۔۔کریم اللہ

چترال کی پسماندگی میں جہاں عوام کی غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کا بنیادی کردار رہا ہے وہیں سیاست دانوں نے ہر دور میں یہاں کےعوام کو رنگ ونسل، ذات پات، فرقہ ومسلک اورعلاقہ واریت کی بنیاد پر تقسیم کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتے رہے۔ دیکھا جائے تو چترال کی سیاست میں مذہب کے نام پر استحصال کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ چترال میں صرف مذہبی جماعتین ہی مذہب کے نام پر سیاست کررہی ہے، حالانکہ اس میں صداقت نہیں یہاں تو ہر موقع پرست نے مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دھیرے دھیرے چترال کا روایتی مذہبی رواداری کا سورج غروب ہوا جبکہ اس کی جگہ عدم برداشت نے لے لی۔ چترال کے اب تک کی سیاست اصولوں، نظریات یا کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض جذباتی نعروں اور نان ایشوز کے گرد گھومتی آئی ہیں۔ اس مختصر تمہید کے بعد اپنے موضوع کی جانب لوٹ آتے ہیں۔ چند روز ہوئے ضلع ناظم چترال حاجی مغفرت شاہ اپنے دورہ یارخون سے واپسی پر پرواک میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے جہاں بہت سارے اعلانات کئے وہیں یہ بھی کہا ‘ہماری خواہش ہے کہ جماعت اسلامی یوتھ ونگ چترال کا اگلا ضلعی صدر کوئی اسماعیلی نوجوان ہو’۔ یہ محض سیاسی بیان تھا یا اس میں حقیقت کا عنصر بھی شامل ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ ضلع ناظم کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا میں بعض دوست آسمان سر پر اٹھا رہے ہیں۔ ان دوستوں کو ماضی میں اے کے یو پی ڈی سی کے قیام کی مخالفت بھی یاد آگئی اور سوشل میڈیا میں یہ تحریک شروع کی گئی کہ ضلع ناظم نے ماضی میں اس ادارے کے قیام کے خلاف پس پردہ رہ کر گیم کیا تھا۔ اور اگر وہ ادارہ بنتا تو اس کا چترال بالخصوص ٹاؤن چترال کے باسیوں کو بہت فائدہ ہوتا۔ مجھے مذہبی سیاسی جماعتوں کی سیاست کے کبھی اتفاق نہیں رہا اور نہ ہی مجھے ضلع ناظم کی سیاست سے اتفاق ہے۔ البتہ اگر ضلع ناظم کو دیر سے ہی سہی چترال کے دونوں کمیونٹیز کو ساتھ لے کر سیاست کرنے کا خیال آیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ جہاں تک اے کے یو پی ڈی سی کے قیام میں حائل رکاؤٹوں کا تعلق ہے تو میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اس ادارے کے قیام میں اصل رکاؤٹ تو چترال کے وہ نااہل اسماعیلی قیادت تھے جو دس برس آگے کا نہیں سوچتے اور نہ ہی مخصوص علاقے کی زمینی حقائق کو سمجھتے ہیں۔ اے کے یو پی ڈی سی جیسے ادارے کو جغور جیسے حساس علاقے میں قائم کرنے کا فیصلہ ہی انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھا کیونکہ بہر حال چترال کے لوگ اتنے بھی باشعور نہیں۔ اس وقت کے اسماعیلی قیادت میں ذرا سا بھی ویژن ہوتا تو جغور میں مخالفت کے فورا بعد بونی، پرواک یا مستوج میں سستے داموں زمین خرید کر وہاں اس ادارے کا قیام عمل میں لاتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور سارا ملبہ ابھی تک ضلع ناظم اور کسی حد تک علماء پر ڈالا جارہاہے جو کہ مناسب نہیں۔ میرے یہ محترم دوست ‘حب علی میں نہیں بلکہ بعض معاویہ میں’ اے کے یو پی ڈی سی کے قیام کی مخالفت پر ضلع ناظم کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ وگرنہ اس ادارے کے قیام سےعام چترالی اسماعیلی یا سنی فرد کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ کیا ہمیں ذرا تاریخ میں جھانک کر دیکھنے کی اجازت ہوگی جبکہ انیس سو چھیتالیس میں اسماعیلیوں کے اڑتالیس ویں امام سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوئم کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی اور اس موقع پر جمع شدہ رقم کو ممبئی، حیدر آباد، کراچی، ہنزہ، غذر،بدخشان اور چترال کے پسماندہ جماعتوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی مناسبت سے ڈی جے یعنی ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کا قیام عمل میں آیا۔ ہنزہ، غذر اور گلگت میں تعلیمی انقلاب کے پیچھے انہی ڈی جے سکولوں کا بنیادی کردار ہے۔ لیکن مہتران چترال نے چترال میں ان سکولوں کے قیام کی اجازت نہیں دی۔ یہی ہماری تعلیمی پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ تیس برسوں تک شہزادہ محی الدین صاحب یارخون، لاسپور اور لوٹکوہ کے اسماعیلی کمیونٹی کو سنی اکثریت سے خوف زدہ کرکے ووٹ اور ہمدردی سمیٹتے رہے۔ اس کا مظاہرہ سن دوہزار آٹھ کے انتخابات میں خاکسار اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ چترال کے اسماعیلی کمیونٹی کو مختلف ادوار میں مختلف افراد نے اپنی سیاسی مقاصد کے لئے ”ایکسپلائٹ” کرتے رہے۔ البتہ اب ہم بھی کافی ہوشیار ہوگئے ہیں۔ اب ہم مذہب ومسلک اور علاقہ واریت سے باہر نکل کر صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ چاہے کارکردگی کس جماعت کی بھی ہو۔ اب ہمیں جھوٹی ہمدردیوں کی ضرورت نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں