228

آیون جنگلاتی علاقہ ہے:۔۔۔۔۔۔۔۔۔عنایت اللہ اسیر

1929 ؁ ء میں ریاست چترال کے ریاستی حکمران اور پولیٹیکل انتظامیہ کے سرپرستی میں ایک جنگلاتی کمیشن بنایا گیا۔ اور اس کمیشن کے تفصیلی تحقیقات تجاویز اور فیصلوں کا پورہ ریکارڈ ( (Scot Notes کی صورت میں اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا حصہ بنکر مستحکم دستاویز کی صورت میں DC آفس کے لائیبریری میں موجود ہے۔ اور اس سے 1964 ء ؁ میں اخذ کرکے چترال کے فارسٹ بلاکز کا نقشہ حقوق اور حدود کا تعین بھی کرکے محکمہ جنگلات کے ورکنگ پلان میں محکمہ جنگلات چترال کے پاس موجود ہے۔ Chitral Gazateir میں بھی اس دستاویز کا ذکر موجود ہے۔
اس کمیشن کے رپورٹ،تجاویز اور نقشے اور فیصلے کے مطابق ریاست چترال کے ۶چھ گورنر یوں، اج کے تحصیل کے مطابق تحصیل دروش اور تحصیل چترال کو 100% جنگلاتی علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ اور ان دونوں تحصیلوں کے عوم الناس کو بلا تفرق یکسان جنگلات سے استفادہ کرنے کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے تجاویزات میں کسی خاص فریق کو عمارتی لکڑی پر مخصوص حقوق کا حقدار قرار نہیں دیا گیا ہے۔ بلکہ صرف چرہ گاہوں کے ملکیتی حقوق چند ایک شھزادوں اور ولی چترال اور مخصوص افرارد کو جاگیردار قرار دیکر ان کو چراگاہیں جو والی چترال نے ان کو دےئے تھے ان پر حقوق دئیے گئے ہیں۔ جو صرف جلانے کی لکڑی اور چراگاہوں کے حقوق تک محدود ہیں۔عمارتی لکڑی کے کاٹنے استعمال کرنے کا اختیار خود والی چترال کو بھی حاصل نہیں رہا۔ وہ وائی سرائی ہند سے منظوری لیکر جنگلات کی کٹائی کرنے کا زمہ دارتھا۔ اور ریاستی دور میں عمارتی لکڑی ریاستی لازمی اخراجات کو پورہ کرنے کے لئے والی سرائی ھیند سے اجازت لیکر قلعوں کی تعمیر، مساجد کی تعمیر اور تجارتی غرض کے لئے 4000 فٹ لکڑی منظوری لیکر براستہ دریائے چترال و دریائے کابل نوشھرہ لے جاکر بیجھا گیا۔ جس کی تفصیلی ریکارڈ موجود ہے۔اس عمارتی لکڑی کے جنگلات صرف اور صرف ریاستی ملکیتی حیثیت رکھتے تھے۔
تحصیل دروش اور تحصیل چترال کے تمام باشیندے اپنے ذاتی گھر بنانے کے لئے ان جنگلات سے بغیر کسی پرمنٹ کے ضرورت کے مطابق عمارتی لکڑی اپنے اپنے حدود کے جنگلات سے کاٹ کر اپنے اپنے گھر تعمیر کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ اور ان کو بہودگی کا اختیار نہیں تھا اسی طرح جلانے کی لکڑی بھی اپنے اپنے متعین حدود کے اندر سے کاٹ کر لاکر کھانے پینے اور گرمائیش کے لئے مفت استعمال کرنے کا حق رکھتے تھے۔ اس کے لئے کسی ریاستی زمہ دار یا ادارے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔بالغل اپنے اپنے مخصوص چراگاہوں میں اپنے اپنے بھیڑبکریاں اور بیل گائے گرمیوں میں لے جاکر بے غیر کسی ادائیگی اور قلنگ کے مفت رکھنے کا اختیار رکھتے تھے۔اور اگر کو ئی فرد یا علاقے کے لوگ ملکر جنگلات سے تجارت کی غرض سے جلانے کی لکڑی لانے کا فیصلہ کرتے تو پھر اس تجارتی جلانے کی لکڑی پر مقامی انتظامیہ کو مخصوص ٹیکس ادا کرنے کا زمہ دار ہوتے ۔اور ریکارڈ ان واقعات سے بھرا پڑا ہے۔چراگاہوں میں اگر باہر سے کو ئی بکری لائے تو مقامی مساجد کے کمیٹی کے اختیار سے ان سے قلنگ لیکر اجتماعی طور پر مقامی باشیندوں کے مفاد عامہ میں خرچہ کرتے۔ اور خود اخیتیاری میں مقامی افراد کو سخت جرمانہ کیاجاتا تھا۔جاگیردار شھزادوں کو اپنے اپنے ملکیتی چراگاہوں میں قلنگ ہی رکھکران سے گھی بکری اور معاوضہ لینے کا اختیار تھا لیتے رہے اور اب بھی لے رہے ہیں۔
F.D.C کے قیام اور 60% رائلیٹی کی شھیدذولفقارعلی بھٹو نے دیرکے عوام کے احتجاج کے نتیجے میں پورے ملاکنڈ دویژن کے علان نے چترال کے دستوری ،قانونی ،سماجی ،ریاستی اور 1929 ؁ء کے اسکارٹ نوٹ کو تلپھٹ کرکے رکھ دیا۔اور چترال کے پرامن باشنیدوں کو Divied and Rule لڑاؤ اور حکومت کرو کے طریقے پر تحصیل چترال اور تحصیل دروش کے 100% جنگلاتی علاقے کے باشیندوں کو اس میں لڑا کر FDC محکمے نے اس وقت کے گورنر مرحوم شھید جنرل فضل حق کی سرپرستی میں چترال کے اس وقت کے ضلعی اسمبلی کے متفقہ قراردادوں کو خاطر میں نہیں لایا اور د’ھرامعیاراخیتار کرکے اس واضح تاریخی شرعی دستوری نقشے کو بگاڑکرلاکھوں جنگلاتی علاقے کے باشیندوں کو ان کے 60% جنگلات کے جائیز،قانونی حق سے محروم کردیا۔
چترال کے شھزادوں کو ان کے ملکیتی چراگاہوں کی بنیاد پر ان علاقوں کے چراگاہوں میں عمارتی لکڑی کے جنگلات کو بھیجکرکروڑوں روپے ادا کئے گئے اور چترال کے جنگلاتی حیات کو تباہ کرکے ماحول کو سیلاب کے نذر کیا گیا۔60% رائیلٹی میں ان علاقوں کے مقامی باشندوں کوکوئی حصہ نہیں دیا گیا۔جو سراسر اس نوٹفیکشن کی خلاف ورزی تھی۔ اور ایک طرف جنگلاتی علاقے سے 150 کلومیٹر رہنے والے شھزادوں جاگیرداروں کو ان کے انفرادی چراگاہوں کی بنیاد پر 60% عمارتی لکڑی کے رائیلٹی کی ادائیگی کرائی گئی ۔ اور مقامی باشندوں کو محروم کیا گیا۔ دوسری طرف تحصیل چترال اور دروش کے مستحکم جنگلاتی علاقے غریب باشندوں کو ان کے تاریخی رسمی دستوری چراگاہوں جو علاقے کے اجتماعی باشندوں کی مشترکہ ملکیت تھیں صرف دو یا تین کلومیٹر یا صرف پانچ کلومیٹر دور کے بستیوں کے باشندوں کو ان کے جائیز حق 60% رائیلٹی سے یکسر محروم کیا گیا۔ خاص کر جنگلاتی علاقے کے رائیلٹی سے خواتین کو یکسر محروم کیا گیا۔جو انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔
عدالتی چکروں میں الجھا کر لوگوں کو لڑا کر جنگلات کو کوڑے دام بھیجکراندھیر نگری مچائی گئی۔۲لاکھ فٹ لکڑی کے بجائے ۵لاکھ فٹ لکڑیاں کاٹ کر ان کے نشانامٹائے گئے۔اکثر افراد کو حقدار قرار دیکر بھی ان کو جائیز حق سے محروم رکھا گیا۔اور ٹمبر مافیا مقامی ایجنٹوں کے زریعے کروڑں کے مالک ہو گئے۔ غریب باشندگان کو معمولی رقوم دیکر ٹرکا دیاگیا۔
30/- روپیہ مربع فٹ سے لیکر 80/- روپیہ مربع فٹ کے حساب سے 10 سے پندرہ لاکھ فٹ لکڑی چترال کے جنگلات کے مختلف مقابات سے FDC کے NOCs اور پرمنٹ پر عشریت چونگی سے گذارے گئے ۔ جنکا کچھ ریکارڈ اب بھی عشریت چونگی پر موجود ہے۔
60% جنگلاتی علاقے کے باشندوں کا حق قرار پا کر ان کو کچھ حصہ آٹے میں نمک کے برابر دیا گیا۔ مگر 40% جو ریاست کا حق تھا اس کا کوئی حساب نہیں کیا گیا۔ کہ وہ اربوں روپیہ کس اکاونٹ پر سرکار کے خزانے میں جمع کیا گیا۔ 10% فی فٹ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا حق قرار رہا تھا۔ لاکھوں فٹ لکڑی چترال سے باہر لے جایا گیا اور 10/-۔۔۔فی فٹ کے حساب ضلعی انتظامیہ کو کہاں کس نے ادہ کئے اس کا بھی پتہ نہیں۔ اب انصاف کا تقاضہ یہ ہے۔ کہ سپریم کورٹ مقدمے سیف اللہ بنام فدا محمدوغیرہ کے مقدمے میں فیصلے کا ترجمہ : ’’60% فیصد عمارتی لکڑی کے امدن کی رائیلٹی جنگلاتی علاقے کے باشندوں کا حق ہو گا۔ اور جنگلاتی علاقے کے باشندے کون ہیں یہ فیصلہ لوکل جرگہ کریگی‘‘ اس فیصلے کے پہلے حصہ پر عملدار آمد عجلت میں نامعلوم زرائع استعمال کرکے 32 لاکھ روپے DC چترال نے بے غیر لوکل جرگہ مقررکرکے جنگلاتی علاقے کے متعین کرنے کے شاہانہ طور پر غیر مستحق فرد کو ادا کر دئیے۔اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوسرا ابھی تک بے غیر عملدار امدکے جوں کا توں پڑا ہے۔ استدعاہے کہ تاریخی حقائق ریاستی قوانیں،اسم رواج اور 1929 ؁ء اسکاٹ نوٹ کے مطابق لوکل جرگہ یا اختیار ہائی کورٹ لیول مقررہ کرکے علاقے چترال تحصیل اور دروش تحصیل کے باشندوں پر سراسر ظلم کردہ ظلمانہ تقسیم پر انکوائیری اور جنگلاتی علاقے کا تعین کرکے انصاف دلادیا جائے ۔ جس میں تحصیل چترال اور تحصیل دروش کے تمام خواتین و حضرات کو برابری کی بنیاد پر جنگلاتی علاقے کا باشندہ ہونے کے ناطے 60% رائلیٹی جنگلات و معدنیات کے خالص آمدن کا حصہ وار قرار دیکر مقامی باشندوں کے ہزاروں سالہ برادرانہ تعلقات کو بحال کیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں