262

گلالئی کے الزامات اور کپتان کا یوٹرن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

اگر عائشہ گلالئی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے قابل اعتراض ٹیکسٹ پیغاما ت موصول ہوئے تھے اورگلالئی کے مطابق ان کو پہلاپیغام اکتوبر2013 میں موصول ہواتھاتواٹھتاسوال یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت خاموشی کیوں اختیارکی تھی اس لئے کے وہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر ممبر قومی اسمبلی بنی تھیں جسے کھوجانے کے خوف سے زباں پر تالالگایا،اگر گلالئی کہتی ہیں کہ موصول ہونے والاپیغام اسی دن انہوں نے اپنے والد کو دکھایاتھاتو سوال یہ ضرورجنم لیتاہے کہ آج پختون روایات کی پاسداری کاشور مچانے اور عمران خان کو للکارنے والے پروفیسر(ر) شمس القیوم وزیر کو اس وقت پختون روایات کاخیال کیوں نہیں آیااور چارسال کاعرصہ کیوں لگااس لئے کہ اس وقت ان کی بیٹی قومی اسمبلی کی نشست پر براجماں تھیں اورانہیں اپنے کچھ اہداف تک رسائی درکارتھی، عزت بڑی چیز قرار دینے والی پختون بیٹی عائشہ گلالئی عمران خان کے مبینہ ٹیکسٹ پیغامات پر ناراض ہونے کے باوجودپارٹی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ کیوں لیتی رہیں،بنی گالہ جاکر پارٹی چیئرمین سے کیوں ملتی رہیں کیاواقعتابداخلاقی پر مبنی قابل اعتراض ٹیکسٹ پیغامات ملنے کے باوجودانہیں عدم تحفظ اور دامن کے داغدارہونے کاذرابھی خوف نہیں رہا،آج خیرخواہ بن کر پی ٹی آئی کی خواتین ورکرز اور منتخب ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کو عمران خان اور ان کی جماعت کے غلط کردارپر لیکچردینے والی عائشہ گلالئی نے عمران کے مبینہ بھیجے گئے ٹیکسٹ پیغامات کے معاملے پر اس وقت پارٹی کی خواتین ورکرزکو خبردارکیوں نہیں کیاتھا کیااس لئے کہ وہ کچھ پانے کی آس لگائی بیٹھی تھیں، عائشہ گلالئی نے عمران خان پر سنگین الزامات لگانے کے لئے اس دن کاانتخاب کیوں کیاجس دن شاہد خاقان عباسی نوازشریف کی عدالت سے نااہلی کے بعدبطوروزیراعظم حلف لیے رہے تھے کیااس سے عمران خان اور ان کی جماعت کے اس مؤقف کو تقویت نہیں ملتی کہ عائشہ گلالئی کی پشت پر نون لیگ کھڑی ہے ،عائشہ گلالئی نے چارسال بعدمنہ کھولنے کاحوصلہ کیوں کیااس لئے کہ انہوں نے عمران خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون پشاور کاٹکٹ مانگااور ان کایہ مطالبہ یکسرمسترد کیاگیاجس پر انتہائی دلبرداشتہ ہوکروہ اتنابڑاقدم اٹھانے پر مجبورہوگئیں کہ عمران خان کااگلاپچھلاسب برابرکردیا،جنم لینے والے یہ سارے سوالات موجود ہیں جومیڈیابھی پوچھ رہاہے اور تحریک انصاف بھی اور قطع نظراس کے کہ عائشہ گلالئی کاان اٹھتے سوالوں کے دینے والے جواب میں کتناوزن ہے تاہم وہ گاہے بہ گاہے جواب دیتی رہی ہیں بلکہ یہ کہناشائد غلط نہیں ہوگاکہ بعض نجی ٹی وی چینلز کے مذاکراتی شوزمیں بڑے سخت نوعیت کے سوالوں کا سامنااوربڑی مشکل حالات میں اپنادفاع کرنے کی بھی کوشش کرتی رہی ہیں،عائشہ گلالئی 07اگست کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان اور ان کی جماعت پر گرجتی برستی اور ہرزہ سرائی کرتی بھی سنائی دی ہیں۔اگرچہ وفاقی حکومت نے عائشہ گلالئی کی جانب سے عمران خان پر لگنے والے سنگین الزامات کی تحقیقات کے لئے حکومت اور اپوزیشن ممبران پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کافیصلہ کیاہے جس کاچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پہلے خیر مقدم کرتے ہوئے تحقیقات کی خواہش ظاہر کی تھی مگر08اگست کو اچانک کمیٹی تسلیم کرنے سے انکاری ہوگئے اور جواز یہ پیش کیاکہ اس کمیٹی میں حکومتی ممبران شامل ہیں جوان کے حریف ہیں اورمزید کہاکہ اگر برطانیہ میں کسی پر اس طرح کاالزام لگتاہے تو ایک غیرجانبدارکمیشن پہلے تحقیقات کرتاہے پھرکوئی اور کارروائی جبکہ ان کاکہنایہ بھی ہے کہ جوالزام لگاتاہے ثابت کرنابھی اسی پر ہوتاہے،اگرچہ عمران خان کواپنی رائے دینے کاپوراحق ہے مگر اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ عمران خان کوئی عام آدمی نہیں وہ ا یک بڑی سیاسی جماعت کے بڑے لیڈرہیں اوربڑے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے کام بڑے ہوتے ہیں،تبدیلی اوراخلاقیات کادعویٰ اور نعرہ تب صحیح معنوں میں وجود پاتاہے جب ایساکہنے والوں کااپنادامن صاف ہو،اگرعمران خان کادامن صاف ہے اگروہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذات پر لگے عائشہ گلالئی کی الزامات میں کوئی صداقت نہیں توانہیں تلاشی دینی ہوگی،اگرعمران خان عائشہ گلالئی کی الزامات کے بعد عوام کی ذہنوں میں اٹھنے والے شکوک وشبہات کاخاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں تلاشی دینی ہوگی ،برطانیہ کی مثال دینااپنی جگہ مگر یہ پاکستان ہے اور یہاں پیش آنے والایہ منفرد واقعہ ہے جو مستقبل میں بطورمثال یادرکھاجائے گا،ااگر پانامہ کیس میں عمران نیازی یہی کہتے سنائی دے رہے تھے کہ جن پر الزام ہے ثبوت وہ پیش کرے گاتوانہیں اپنے اس مؤقف سے پیچھے ہٹناہوگاکہ جوالزام لگاتاہے وہی ثبوت پیش کرے گا،گرعمران خان کی نظرمیں گلالئی کے الزامات غلط ہیں تو تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے انہیں غلط ثابت کریں ایساہونے پر قانون ان کے خلاف اپناراستہ لے گااور انہیں علم ہوناچاہئے کہ کمیٹی ماننے اور پھر انکاری ہونے پر ان کے سیاسی مخالفین انہیں یوٹرن کابادشاہ قراردے رہے ہیں،پی ٹی آئی نے امیرمقام اور گورنر خیبرپختونخوا کے ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں کاذکرکرکے نون لیگ پر عائشہ گلالئی کے اکسانے اور ان کی پشت پناہی کاالزام لگایاتو ردعمل میں گلالئی نے اپنا اور اپنے والد کا موبائل فون پیش کرنے کی حامی بھرتے ہوئے ساتھ میں امیرمقام اور گورنر خیبر پختو نخواکے موبائل فونزکافرانزک جائزہ لینے کابھی مطالبہ کیا ایسے میں عمران خان کے پاس واحد راستہ یہی بچتاہے کہ وہ خود کوکمیٹی کے سامنے پیش کریں تاکہ دودھ کادودھ اور پانی کاپانی ہوجانے کی صورت میں ان کی بے گناہی ثابت ہوجائے تاہم اپنی تلاشی دینے کے برعکس عمران خان کے میں نہ مانوں کی پالیسی پر قائم رہنے سے عائشہ گلالئی کے مؤقف کو تقویت ملے گی جبکہ عمران خان اس کانقصان اٹھائیں گے،کیونکہ بقول شاعر ’’یہ ادھرادھر کی تو بات نہ کریہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا،مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تیرے رہبری کاسوال ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں