372

۔’’حقیقی آزادی کا دن ‘‘۔۔ تحریر۔۔ صوبیہ کامران۔۔ بکرآباد چترال

’’ حقیقی آزادی کادن‘‘
پاکستان ہمارا پیارا ملک ہے ۔ اس کو حاصل کرنے کیلئے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔اسی لئے اس کے اہم دن ہم بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ان دنوں میں یوم آزادی اہم ترین دن ہے۔پاکستان بننے سے پہلے پورے بر صغیر میں قریباََسو سال تک انگریزوں کا قبضہ رہا۔انگریزوں کے قبضے سے سے پہلے بر صغیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے مسلمان مسلسل کوشش کرتے رہے۔اللہ تعالیٰ محنت کا پھل ضرور دیتا ہے ۔ یہی وجہ سے کہ بہت سی قربانیاں دینے کے بعد آخر کار 14اگست 1947 ؁ء کو پاکستان بن گیا۔اس دن بر صغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگئے اور اپنا ایک الگ ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ یہ ملک ہم نے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلئے حاصل کیا ہے ۔
ہمارا وطن پاکستان وہ وطن نہیں جو وراثت میں اس کے بسنے والوں کو ملا ہے بلکہ پاکستان کی بنیادیں استوار کرنے کیلئے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا ہے۔اتنی گراں قدر تخلیق کا اندازہ وہی لگا سکتاہے جس نے تعمیر پاکستان میں تن، من،دھن،بیوی، بچے، بہن بھائی،عزیز و اقارب قربان کئے ۔ حصول پاکستان کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کتنی ماؤں کے سامنے ان کے بچے قتل کر دئے گئے۔کتنے بے بسوں کے سامنے ان کے خاندان کو مکانوں میں بند کرکے نذر آتش کر دیا گیااور وہ بے چارے دل پکڑ کر رہ گئے۔کتنی پاکدامنوں نے نہروں اور کنوؤں میں ڈوب کر پاکستان کی قیمت ادا کی۔بے شمار بچے یتیم ہوئے جو ساری عمر اپنے والدین کی شفقت کیلئے ترستے رہے۔اس کی وادیاں اپنے اندر فردوس کی رعنائیاں لئے ہوئے ہیں۔ ہرے بھرے اور وسیع و عریض کھیت سونا اگل رہے ہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمیں ہر قسم کی آزادی اور سامان آسائش و آرائش مہیا ہے مگر یہ کبھی نہ بھولیں کہ اس میں سلطان ٹیپو کا خون ، سرسیدکی نگادوربین اقبال کے افکار، قائداعظم کے جہد مسلسل اور دوسرے اکابرین کا ایثار بھی شامل ہے اور ان کا ایسا کرنے کا مقصد کیا تھا۔’’ ایک آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کا حصول‘‘۔
14اگست 1947ء وہ مبارک دن تھا، جب مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مسلمانوں کے اتفاق اور قائداعظم کے خلوص کی وجہ سے یہ عظیم سلطنت وجود میں آئی ۔اس کامیابی کی خوشی میں ہم ہر سال 14اگست کو تمام دن خاص تقریبات منعقد کرتے ہیں ۔ ان بزرگوں کی کوششوں کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے تقریریں کرتے ہیں جنہوں نے عظیم قربانیاں دے کر ہمارے لئے یہ وطن بنایا ۔ ان تقریروں میں اس بات پر خاص زور دیا جاتا ہے کہ ہم ان قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دیں اور ملک کے چپے چپے کی حفاظت کریں۔یوم آزادی کی خوشی میں ہر سال عام تعطیل ہوتی ہے البتہ اسکول اور کالج صبح کو کچھ دیر کیلئے کھلتے ہیں ۔ سکولوں اور کالجوں کے طالب علم خاص قوی پروگرام بناتے ہیں۔وطن کی محبت کے نغمے گاتے ہیں۔ تقریریں کرتے ہیں۔
یوم آزادی کے موقع پر سارے ملک کے شہروں اور قصبوں میں چراغاں کیا جاتا ہے ۔ لوگ جوق در جوق گھروں سے باہر آجاتے ہیں ۔ سرکاری اور نجی عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔کراچی میں لوگ بانی پاکستان قائدا عظم کے مزار پر جاتے ہیں ۔ قرآن خوانی اور فاتحہ کرتے ہیں۔پھولوں کی چادریں چڑھاتے ہیں۔مزار کی حفاظت کیلئے ایک فوجی دستہ ہمیشہ مزار پر موجود رہتاہے ۔ اس روز یہ محافظ دستہ بھی تبدیل کیا جاتا ہے ۔ مساجد میں ملک وقوم اور تمام امت مسلمہ کی ترقی و خوشحالی کیلئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہم پر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا فضل کیا ہے کہ ہمیں بھی آزادی میسر ہوئی اور آج ہم ایک آزاد ملک پاکستان میں جی رہے ہیں۔ جہاں پر ہم آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔بس گلہ شکوہ اتنا ہے کہ کیوں آج ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ کیوں ان کی قربانی ہماری نظروں سے عیاں نہیں ہوتا۔ اور ہماری تمنا یہ ہے کہ آج پھر ایک ایسے رہنما کی تلاش میں ہیں،جس کے پاس اقبال جیسی فکر ، قائداعظم جیسی ہمت اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ ہو جو ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو ترجیح دے ۔ مگر کب…..؟ کب آئے گا وہ مرد قلندر جو پوری قو م کو ایک صف میں کھڑا کر دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں